سڑک

سڑک

تحریر محمد اظہر حفیظ

اسلام علیکم، بہت دن ھوگئے آپ کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں آئی سوچا اپنے دل کا حال لکھ بھیجوں، شاید کوئی رابطہ ھی ھوجائے کسی رابطہ سڑک کی طرح،

میری کئی اقسام ھیں کچی سڑک، پکی سڑک، ٹوٹی سڑک، پہاڑی سڑک ، میدانی سڑک، صحرائی سڑک، دریائی سڑک، ہموار سڑک، ناہموار سڑک، پر اس سے فرق کوئی نہیں پڑتا میں تو وھیں رھتی ھوں لوگ مجھ پر محوسفر ھیں، کچھ دوران سفر رو رھے ھوتے ھیں کچھ گنگنا رھے ھوتے ھیں، کچھ سوچ رھے ھوتے ھیں، کچھ خالی ذھن بیٹھے ھوتے ھیں، میرے مشاہدے بہت مختلف ھیں، کہیں ایک گاڑی سجی ھوئی جاری ھوتی ھے جس میں خوشی اور محبت بھرے گیت چل رھے ھوتے ھیں میں بھی سن کر محظوظ ھوتی ھوں، شاید یہ شادی کی گاڑی ھوتی ھے، کچھ کے ساتھ تو سازندے بھی ھوتے ھیں چھوٹے بڑے ڈھول اور باجے، مجھے بھی اچھا لگتا ھے کہ آج خوشی کادن ھے اور یہ سفر مجھ پر ھورھا ھے میں دو دلوں کو ملا رھی ھوں، کبھی کبھی پولیس کے مقابلے بھی میرے اوپر ھوتے ھیں پولیس گناہگاروں اور بے گناہوں کو مارنے کیلئے بھی میرا ھی استعمال کرتی ھے یہ ظلم بھی میں ھوتے دیکھتی ھوں، کبھی کوئی احتجاج کیلئے ٹائر رکھ کر اس کو آگ لگاتا ھے تو ساتھ مجھے بھی آگ لگ جاتی ھے مجھے جلنے کی شاید اتنی اذیت نہیں ھوتی جتنی اس آگ کی بدبو سے مجھے الرجی ھوجاتی ھے، مجھے سائرن کی آواز اچھی نہیں لگتی مجھے لگتا ھے کوئی مر گیا ھے یا مرنے جارھا ھے، کبھی وہ آواز کسی ایمبولینس کی ھوتی ھے، کبھی پولیس گاڑی کی اور کبھی کسی سرکاری گاڑی کی۔ پر مجھے یہ آواز کسی کے مرنے کی ھی محسوس ھوتی ھے، کچھ گاڑیاں بہت اچھی ھوتی ھیں بڑی بڑی لمبی لمبی بے شمار وزنی کئی کئی پہیے وہ میرے سکس پیک بنانے کے کام آتی ھیں مجھے لگتا ھے کہ میں نے شاید کسی فلم میں کام کرنا ھے یا کسی تن سازی کے مقابلے کیلئے جارھی ھوں پر جب سکس پیک بن جاتے ھیں تو پتہ چلتا ھے مجھے بنانے والے گرفتار ھوگئے ھیں، میرے مختلف کردار ھیں میں ملنے کیلئے بھی استعمال ھوتی ھوں اور بچھڑنے کیلئے بھی، کوئی میری طرف دیکھ کر مسکراتا ھے، گانے گاتا ھے، اور کوئی خاموشی سے رو دیتا ھے، مجھ پر طرح طرح کی سواریاں چلتی رھتی ھیں واپسی اکثر کی ایمبولینس پر ھوتی ھے، کوئی مجھ پر آہستہ سفر کرتا ھے اور کوئی تیزرفتاری سے، جب کوئی حادثہ ھوجاتا ھے تو ڈرائیور کو بھاگتے میں خود دیکھتی ھوں پر پکڑ نہیں سکتی ، پر لوگ مجھے منحوس قرار دیتے ھیں کہ یہ تو سڑک ھے ھی منحوس، میں بہت کچھ ھوتے دیکھتی ھوں کوئی سچ بول رھا ھوتا ھے اور کوئی مکر وفریب کر رھا ھوتا ھے، مجھے سنائی تو دیتا ھے پر کسی کو بتا نہیں سکتی، کچھ بسوں والوں نے بہت تیز ھارن لگائے ھوتے ھیں شاید پریشر ھارن کہتے ھیں انکو، میرے تو ھاتھ بھی نہیں ھیں جو کانوں پر رکھ سکوں ھاں کچھ لوگ ٹوٹے ھیڈ فون مجھ پر پھینک جاتے ھیں وہ کبھی کبھی میں کان پر لگالیتی ھوں اس ظالم آواز سے بچنے کئے، میری کئی نسلیں ھیں شاید آپ کو سن کر عجیب لگے، اگر آپ غور کریں سب سڑکیں آپس میں رابطہ رکھتی ھیں بڑی سڑک سے، یہ میرا خاندان ھے کوئی کہیں آباد ھے تو کوئی کہیں آباد ھے، ھم سب ایک ھیں ایک سے ایک جڑی ھوئی۔

چاروں موسم مجھ پر آتے اور جاتے ھیں، موسم جیسا بھی ھو ھم وھیں رھتیں ھیں اور رابطے میں رھتیں ھیں، کچھ لوگ ھم پر سفر نامے لکھتے ھیں کچھ افسانے اور کچھ شعر کہتے ھیں، میں ھوں ھی ایسی کبھی بل کھاتی لہراتی غزل، کبھی آزاد نظم نہ کوئی پابندی نہ رکاوٹ، کبھی تو اپنا آپ دکھادوں کبھی اپنا آپ دھند میں چھپادوں اور کبھی سراب بن جاوں لوگ میرے پیچھے بھاگیں پر ھاتھ نہ آوں، مجھ پر جگہ جگہ ٹال پلازے بھی بنے ھوئے ھیں۔ جتنی میری آمدن ھے اتنا مجھ پر خرچ نہیں ھوتا اس کا بھی مجھے دکھ ھے، کبھی کبھی میری بھی ریڑھ کی ھڈی ٹوٹ جاتی ھے تو پتہ چلتا ھے لینڈ سلائیڈ ھوئی ھے ، پھر مختلف ڈاکٹر میرا علاج کرتے ھیں جب مجھے بنایا جاتا ھے تو مجھے پر مختلف طرح کی خودکار روشنیاں لگائی جاتی ھیں سفید پیلے نشانات لگائے جاتے ھیں ، پھر مجھ کو دوبارہ سے اکھیڑا جاتا ھے، کبھی میرے دل کا آپریشن کیا جاتا ھے میری ٹانگ کاٹ کر نالیاں نکالی جاتی ھیں، کبھی میری اینڈوسکوپی کی جاتی ھے پائپ ڈالے جاتے ھیں سب اتنا بے ترتیب ھے کہ میرا حسن روز بروز ماند پڑتا رھتا ھے، کبھی مشینوں سے، کبھی بارود سے کبھی، ھاتوں سے مجھے توڑا جاتا ھے میں واسطے دیتی رھتی ھوں کہ میں آپ کی خدمت کرتی ھوں مجھ پر رحم کرو آگے سے دلیلیں دیتے ھیں ایسا نہ کریں تو ھمارے بچے کیسے پلیں، ھمارے گھر کیسے بنیں، ھم گاڑیاں کیسے خریدیں، میں سب کے کام آتی ھوں پر میرے کام کوئی نہیں آتا، میں سب کی خوشی غمی کی ھمسفر ھوں، پر میرا ھمسفر کوئی نہیں ھے، رات کو مجھے بھی ڈر لگتا ھے، پر کس کو بتاوں، سب مجھ سے وابستہ ھیں پر میرا حال پوچھنے والا کوئی نہیں، کوئی مجھ پر ڈکیتاں کرتا ھے اور کوئی محبت بھری باتیں، ھیں دونوں ھی ڈکیتاں یہ میں جانتی ھوں یا میرا رب جانتا ھے،

اگر آپ ھمت کریں تو پختہ سڑک سے اتر کر کچی اور پتھریلی سڑکوں پر بھی سفر کریں، وہ جہاں ھی اور ھیں۔ میں آپ کو لے جاوں گی، جھیلوں پر، پہاڑوں پر، صحراؤں پر، دریاوں پر، کہیں ماونٹ ایورسٹ سامنے ھوگا تو کہیں کے ٹو، کہیں آبشار سامنے ھوگی اور کہیں جھیل سیف الملوک، کہیں برف سامنے ھوگی تو کہیں تپتے صحرا، میرے ھمسفر تو بنئے مجھے ھمسفر کی ضرورت ھے، میں بہت اداس ھوں اکیلی ھوں کوئی وباء آئی ھوئی ھے آجکل، کوئی مجھے ملنے ھی نہیں آتا میں ویران ھو رھی ھوں، بیوہ ھورھی ھوں، میں تو سدا سہاگن تھی پر اب تو مجھے لگتا کہ کرونا شاید مجھے ھوگیا ھے جو لوگ مجھ سے دور بھاگ رھے ھیں، اس عید پر نہ کوئی عید ملنے آیا نہ کسی نے عید دی، نہ کسی نے چوڑیاں پہنائیں نہ ھی مہندی لگائی، سنا ھے سرکار کی طرف سے پابندی تھی، مجھے آئسولیشن میں رکھنا تھا، میرا بے شک کرونا ٹیسٹ کروالیں پر مجھے ملنے تو آئیں، میرے بھی تو کوئی جذبات ھونگے، بس آج یونہی ھمکلامی کررھی ھوں، کوئی شکوہ نہیں ھے،

آپکی منتظر

آپکی اپنی سڑک

Prev رضیہ سلطانہ
Next گٹھلی

Comments are closed.