سیاست

سیاست

تحریر محمد اظہر حفیظ

ہم سب محبت کرنے والے دوست تھے ایک ایک کرکے سیاست کی نظر ہوگئے۔ سوشل میڈیا تیرا کَکھ نہ رَوے۔

یاراں تو دور کردیتا۔ سب کو اپنے لیڈر بہت پیارے ہیں اور مجھے تو اپنے لیڈر میرے پیارے نبی اکرم صلی الله عليه وسلم بے حد پیارے ہیں ۔ ان جیسا توکوئی ہو ہی نہیں سکتا اور نہ ہی کوئی آس پاس ہے۔

کچھ دوستوں کے دنیاوی لیڈر ہیں جن کی محبت میں وہ سب کچھ بھول چکےہیں۔ کچھ دوستوں کو سوشل میڈیا پر ان فالو کیا، کچھ کو ان فرینڈ کیا اور کچھ کو تو بلاک ہی کردیا۔ میں بس اپنے عظیم ترین لیڈر اور راہنماء کی راہنمائی میں جی رہا ہوں۔ شکر الحمد لله

مجھ دکھ ہے کہ کچھ فوتگیاں، جنازے اور بیماروں کیلئے دعائیں میں نہ کرسکا کیونکہ مجھے انکی سوشل میڈیا پوسٹس کے اختلاف کی وجہ سے رابطہ ہی نہیں ہوسکا۔ کیونکہ رابطے جو ختم کردئیے تھے۔

مجھے بلکل بھی فرق نہیں پڑتا کہ کس کی حکومت آئے اور کس کی جائے۔ کب دن لمبے اور کب راتیں لمبی ہوتی ہیں۔

بے نظیر صاحبہ، نواز شریف صاحب، جرنل مشرف صاحب، یوسف رضا گیلانی صاحب، پرویز اشرف صاحب، عمران خان صاحب، شہباز شریف صاحب جسکی بھی حکومت آئی میری مزدوری میں ایک منٹ کی کمی نہیں آئی اور نہ ہی میری آمدن میں اضافہ ہوا۔ زندگی گزر گئی اوور ٹائم لگاتے لگاتے۔ ہمیشہ تنخواہ مہینے کے آخر یا اگلے مہینے کے شروع میں مل جاتی ہے اور دس تاریخ سے ہی دائیں بائیں دیکھنا شروع ہوجاتے ہیں کہ زندگی کا نظام کیسے چلے گا۔ اتنی تنخواہ نہیں بڑھتی جتنی مہنگائی بڑھ جاتی ہے ۔ اس کام کا نقصان یہ ہے کہ بندہ گمراہی کی طرف نکل جاتا ہے اور وہ رب کے ساتھ ساتھ انسانوں سے بھی امید لگانے لگ جاتا ہے۔ اور شرک کر بیٹھتا ہے۔

میرابھی دل کرتا ہے کہ کبھی میری آمدن سے پانچ سو روپے بچ جائیں اور میں اپنے آپکو خوش قسمت سمجھ سکوں پر ممکن نظر نہیں آتا۔ زندگی اسی تگ و دو میں گزرتی جارہی ہے۔ شاید گزر ہی گئی ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے جو میری کمیٹی انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ والوں کے ساتھ پچھلے تیس سال سے ڈلی ہوئی ہے پتہ نہیں کب نکلے گی اور زندگی میں خوشحالی آئے گی۔ بیس سال بعد تو انشورنس والے بھی چار گنا پیسے واپس کردیتے ہیں پر انکے وعدے بھی کچے گھڑے کی طرح نکلے۔ مجھے آج تک اپنی اس کمیٹی کا فائدہ نظر نہیں آیا۔ نہ زندگی میں اور شاید نہ ہی مرنے کے بعد۔

کچھ لوگ ہمارے انکم ٹیکس سے پیسے لیکر اپنا اپنا آئی ایم ایف بنا چکے ہیں۔ اور کئی کئی لنگر خانے بھی۔ ابھی بھی جب اشتہار دیکھتے ہیں کہ آپ کی مدد کے منتظر فلاں فلاں ادارے تو سوچتا ہوں ان اداروں میں میرا نام شامل کیوں نہیں۔

میں محنت کرتے کرتے اب تھکنا شروع ہوگیا ہوں شاید قوت برداشت بھی کم ہوگئی ہے۔ ہر دوسری بات بری لگتی ہے ۔ اب یہ عادت بھی بری لگنا شروع ہوگئی ہے لوگوں کا وقت گزرتا جارہا ہے اور ہمارا وقت ویسے کا ویسا کھڑا ہے جیسے سکول کی جس کلاس کا کام نہ کیا ہو اس کا وقت گزرتا ہی نہیں بلکل ویسے ہمارا وقت تھم سا گیا ہے۔ زندگی وقت کے بھنور میں پھنستی جارہی ہے۔ الله ہی مدد کریں گے تو نکل سکیں گے۔ انشاء الله

ہمیں اپنے پیاروں اور یاروں کو بچانے کیلئے پوسٹ کرتے وقت احتیاط کرنا ہوگی۔ کہ ہم سیاست کو سپورٹ کر رہے ہیں یا پھر کسی اپنے کی دل آزاری کر رہے ہیں ۔ فیصلہ آپکا ہے ۔ اگر تو کسی بھی سیاستدان کا گھر آپ جتنا ہے یاچھوٹا ہے تو وہ سیاست دان ہے ورنہ یہ سب سیاست کوخدمت نہیں کاروبار سمجھ کر کررہے ہیں ۔ گفتگو میں احتیاط کیجئے ۔ احتیاط زندگی ہے آپکی بھی اور میری بھی۔

Prev تصویریں
Next تیری یاد ستاندی

Comments are closed.