شہر

شہر
تحریر محمد اظہر حفیظ
میری آنکھوں میں شہر بستے ہیں۔ کھلی پختہ گلیاں، بلندوبالا عمارات، پھولدار باغ، سرسبز پہاڑ، سگنل فری سڑکیں، قومی اسمبلی ، سپریم کورٹ، پاکستان ٹیلی ویژن ، سینٹ، وزیراعظم ہاوس، صدر ہاوس، سرینا ہوٹل، میریٹ ہوٹل، مونال ، دامن کوہ، شکرپڑیاں، بڑے بڑے پل، دریا، ڈیم، باغ، باغیچے، بڑی بڑی گاڑیاں اور کیا بتاوں کیا کیا خواب بستے ہیں۔
کبھی میں جہاز اڑاتا ہوں اور کبھی ٹرین چلاتا ہوں، روز اینڈ جاسمین گارڈن میں واک کرتا ہوں اور کبھی بلند میوزک لگا کر میں موٹروے پر تیز گاڑی چلاتا،ہوں یہ سب شہر میری آنکھوں میں بستے ہیں، اور میں جاگتی آنکھوں سے ان شہروں کے خواب دیکھتا ہوں، جب میں لاہور شہر کی نہر سے گزرتا ہوں تو ہر پل سے میں سر نیچے کرکے گزرتا ہوں کہیں ٹکرا ہی نہ جائے، پرجب میں مینار پاکستان کو دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے میرا قد اس سے تو چھوٹا ہی ہے اگر یہ چل کر یہاں پہنچ گیا ہے تو میرا سر کیوں ٹکرائے گا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں اگر میرا قد مینار پاکستان جتنا ہوتا تو میں سب کو اوپر سے دیکھتا، بادشاہی مسجد ، جناح باغ، گورنمٹ کالج، مسجد وزیر خان، داتا دربار اور بلندی سے داتا صاحب کیلئے دعا کرتا، بی بی پاکدامن کے مزار کو دیکھتا اور کبھی مسجد وزیر خان کے گنبدوں کو دیکھتا اور کبھی بادشاہی مسجد اور لاہور قلعے کی وہ جگہیں دیکھتا جہاں کبوتر رہتے ہیں۔ لوگوں کو شہر دیکھنے کا شوق ہوتا ہے جب میں انھیں کہتا ہوں اگر شہر دیکھنے ہیں تو میری آنکھوں میں دیکھو وہ تمام شہر نظر آئیں گے جوآپ دیکھنا چاہیں گے۔ آپ کو مکہ مکرمہ بھی نظر آئے گا اور مدینہ بھی۔ بس دیکھنا یہ ہے کہ آپ کیادیکھنا چاہتے ہیں۔ مری کی مال روڈ ، فیری میڈوز کی ریفلیکشن لیک، نانگا پربت، کے ٹو، راکاپوشی، سب ہی موسم تم دیکھ سکتے ہو میری آنکھوں ، بہار، خزاں ، گرما، سرما اور برسات تو اس زور کی کہ تھمنے ہی نہ پائےندی نالے دریا سمندر سب بھر جائیں۔ پر یہ برسات نہ رکے ۔ کل ایک ڈاکٹر بتا رہے تھے ہم کتنا پانی پیتے ہیں اور کتنی دیر میں وہ ہمارے جسم سے خارج ہوجاتاہے،میں سوچتا ہی رہ گیا جتنی میری آنکھوں سے برسات ہوتی ہے اتنا تو میں پانی نہیں پیتا۔ بس سوچتا رہتا ہوں اس برسات کو روکوں کہیں آنکھوں میں بسنے والے شہر اس سیلاب میں بہہ نہ جائیں، کبھی سوچتا ہوں آنکھوں سے آگے ڈیم بنا لوں تاکہ برسات کا پانی ضائع نہ ہو کام آجائے۔ یہ سب کے سب شہر میری آنکھوں میں رہتے ہیں پر دکھ کی بات یہ ہے کہ میں مضافاتی دیہات کاایک بچہ ہوں جو اپنی آنکھوں میں شہر کے سپنے سجائے کھو سا گیا ہے ۔ نہ اسکو راستہ مل رہا ہے اور نہ گاوں ۔ وہ تنگ گلیاں ڈھونڈ رہا ہے جوکہ اب یہاں نہیں ہیں، اگر کوئی اس کو ان تنگ گلیوں تک لے جائے تو وہ آسانی سے گاوں جاسکتا ہے۔ اور پھر سے کئی شہر بسا سکتا ہے۔ مجھ سے بہت بڑی غلطی سرزرد ہوئی جو میں نے گاوں میں رہتے ہوئے آنکھوں میں شہر بسالئے، اب نہ گاوں میرے رہے اور نہ ہی شہر بس خواب رہ گئے میری آنکھوں میں اور سب خواب تو سچے نہیں ہوتے جب سے یہ پتہ چلا ہے میرے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچا۔ اللہ پوچھے اس شخص سے جس نے ہمارے گاوں میں سڑک بنائی اور اسی سڑک کے راستے شہر ہماری آنکھوں میں آبسے۔ اور ہم ایک اصل اور سچی زندگی سے نکل کر شہروں میں آبسے۔ افسوس یہ ہے کہ میرے گاوں کے تو گھر اور راستے کچے تھے پر لوگ بہت سچے تھے اب گھر اور راستے پتھروں کے بن گئے ہیں اور لوگ بھی پتھر دل ہوگئے ہیں۔ جب تک شہر کے خواب نہیں دیکھے تھے مجھے نہیں پتہ کہ مادی چیزوں کی قیمتیں کیا ہیں سب کچھ ہی تو اپنا تھا۔ پھر ہم نے گاوں گروی رکھ کر شہر بنالئے اور اس کی قیمت ہر چیز پر چکا رہے ہیں۔ سب قصور میری آنکھوں کا ہے جسنے شہر بسانے اور ان میں آکر رہنے کے خواب دیکھے۔ مجھ سے میری آنکھیں، میرے خواب، میرے شہر واپس لے لو اور میرے کچے گھروں اور راستوں والےگاوں واپس کردو۔ پگڈنڈیوں پر چلتے جو توازن برقرار رہتا تھا اب وہ بھی گیا۔ میرے پاوں لڑکھڑا جاتے ہیں جب میں ان پکے راستوں پر چلتا ہوں اور ڈاکٹر کہتا ہے کچے ٹریک پر واک کریں، آرگینک سبزیاں اور پھل کھائیں ، فاسٹ فوڈ،مت کھائیں تو بھائی جہاں یہ سب مفت موجود تھا میں سب چھوڑ کر شہر یہی چیزیں خریدنے نکل آیا۔ کیسے میرے دوست ہیں کسی نے روکا بھی نہیں ۔ شاید گاوں کے بچوں کے دوست بھی گاوں میں رہ جاتے ہیں شہر بھلا کبھی کسی کے ہوئے، گاوں کے تو قبرستان بھی چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں کیونکہ لوگ کم بیمار ہوتے ہیں اور مرتے ہیں شہر کے گھر اور قبرستان دونوں دیکھ لو سب مرے پڑے ہیں ، کسی کا ضمیر مر گیا ہے اور کسی کا احساس۔ سویا ہوا محل پڑھا تھا تیسری کلاس میں اور میں وہ دیکھنے شہر آگیا یہ تو سویا ہوا شہر ہے۔ جہاں کوئی کسی کا نہیں ہے۔ شاید قیامت کا دن آگئے ہیں اور شہر بس گئے ہیں کیونکہ وہاں سب اپنا اپنا حساب دیں گے یا پھر اس کی تیاری کیلئے شہر بسائے جارہے ہیں۔ اور لوگوں کو شہر کے خواب دیکھا کر گاوں سے لایا جارہا ہے۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے آمین

Prev قفس
Next عید مبارک

Comments are closed.