عقیدت

عقیدت
تحریر محمد اظہر حفیظ

حاضری تھی اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی۔
کیمرے گھر چھوڑے بیوی بچے ماں باپ ساتھ لئے اور چل پڑے۔ بیوی بھی حیران تھی یہ پہلا سفر ھے اور کیمرہ ساتھ نہیں۔ خیریت ھےاظہر دوسری کو گھر چھوڑ کر جا رھے ھیں ھاں یار میں آج تھوڑا مطلبی ھوگیا ھوں ھر منظر دکھانے والا نہیں ھوتا میں دیکھنا چاھتا ھوں اور اپنے اندر جذب کرنا چاھتا ھوں۔ مکہ اور مدینہ دیکھا تو جاسکتا ھیں دکھایا نہیں جا سکتا دکھانے کی اجازت میرے سوھنے رب کی ھے اور وھی اس کی منظوری دیتا ھے۔ کوئی کیمرہ ابھی تک ایجاد ھی نہیں ھوا جو اس روح پرور جگہ کا نظارہ کرا سکے۔ شاید ایسے مناظر سے روکنے کیلئے ھی تصویروں پر پابندی کا ذکر آتا ھے۔ حرم کو چھونے کا مزا اور غلاف کعبہ کو چومنے کا مزا جو مکہ میں ھے وہ سمجھانا بتانا ممکن نہیں۔ مسجد نبوی کو چل کر جانا اس فضا میں سانس لینا اس سر زمین پر سجدہ کرنا اور جہاں لکھا ھے اسلام و علیکم یارسول اللہ یہ لطف وھاں جاکر ھی سمجھ آسکتا ھے۔ خانہ کعبہ کو چھونا وھاں نماز ادا کرنا اس کے طواف کرنا بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ مجھے تو حرم کے دروازوں سے باھر جو عربی نعت اور تلاوت کی آواز ھے چودہ سال بیت گئے وہ آج تک میرے کانوں سے تحلیل نہ ھوسکی جب سوچتا ھوں دوبارہ آواز آنا شروع ھوجاتی ھے۔ مسجد نبوی روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت کا مقام ھی کچھ اور ھے صرف اس کے بازاروں سے کھجور خریدنا، گلیوں میں چلنا اس کا دنیا کی کسی اور جگہ کوئی مقابلہ نہیں۔ فجر کے وقت والدین بیوی بچوں کے ساتھ مسجد نبوی کی طرف پیدل جانا شاید ایسے روح پرور مناظر نہ میں کبھی پھر دیکھ سکا اور نہ کبھی بیان کرسکا۔ وقت بدلہ سیلفیاں کلاک ٹاور سے تصاویفر، پرچیاں لکھ کر لوگوں کے نام درج کرکے سوشل میڈیا پر لگانا ایک نئی عبادت کی طرف پہلا قدم ھے۔ ابھی کرتارپورہ گردوارہ کا افتتاح ھوا بہت دل دکھا دینے والی سیلفیاں اور تصاویر سامنے آئیں جیسے لوگ حرم کی تصاویر شیئر کرتے ھیں اسی طرز کی تصاویر گردوارہ میں سر پر پیلا کپڑا باندھے بنا رھے ھیں اور شیئر کر رھے ھیں۔ اللہ انکی حاضری اور عقیدت قبول فرمائیں۔ مجھے آج تک یہ تصویر حرم میں ھضم نہیں ھوئی یہ تو گردوارہ ھے۔
ھر مذھب کی عبادت گاہ کا احترام ھم پر لازم ھے۔ پر اس کی مکہ اور مدینہ سے مماثلت دینا قابل قبول نہیں بے شک وہ الفاظ سربراہ مملکت کے ھی کیوں نہ ھوں۔ سنا ھے ماواں سانجھیاں ھوندیاں نے پر جو سکون اپنی ماں نوں ملن دا اے او ھور کتھے۔ سنا تھا کہ فوٹوگرافری اصل میں قربانی دینے کانام ھے جو منظر فوٹوگرافر لوگوں کو دکھاتا ھے وہ خود اس کو دیکھنے سے محروم رہ جاتا ھے۔ میں ھرگز بھی ایسا فوٹوگرافر نہیں بن سکتا جو مکہ اور مدینہ خود دیکھنے سے محروم رہ جائے، دنیا اور سوشل میڈیا کو دکھاتا پھرے۔
مجھے اچھا نہیں لگتا حرم سے مسجد نبوی سے ویڈیو کالز،اور آڈیو کالز لو جی اپنی دعا خود کریں ۔ یہ کیا طریقہ ھے دعا کریں اللہ سب کی حاضری کا انتظام کردیں۔ پتہ نہیں لوگ اس طرح کے مذاق دین کے ساتھ کیسے کر لیتے ھیں۔ احتیاط کیجئے عبادت کیجئے۔ حج،عمرہ کو فوٹو شوٹ مت بنائیے۔ ابھی لاھور بادشاھی مسجد کی انتظامیہ نے لوگوں سے تنگ آکر ویڈنگ شوٹس پر پابندی لگا دی ھے ۔ دلہا دلہن کا گلے ملکر مسجد کے اندر تصاویر بنانا کون سا مذھبی فریضہ ھے۔ کیا مساجد اس کام کیلئے بنائی گئیں ھیں ۔ کتنے جوڑے ھیں جو مسجد میں شوٹ کے دوران نماز بھی ادا کرتے ھیں۔ مساجد کو عبادت گاہ ھی رھنے دیں آپکی مہربانی ھوگی۔ باقی حرم اور مسجد نبوی میں شوٹس پر سختی سے پابندی کب لگتی ھے اس کی بھی اشد ضرورت ھے ۔ بے شک اللہ نیتوں کو بہتر جاننے والے ھیں اور بہتر ھدایت دینے والے ھیں۔

Prev میرا لعل گواچ گیا
Next میں دیہاتی تھا تو اچھا تھا

Comments are closed.