علم

علم
تحریر محمد اظہر حفیظ

سننے میں آیا تھا علم حاصل کرو گود سے گور تک۔ زندگی کے پچاسویں سال میں سوچا ایم ایس میڈیا سٹڈیز کرلیا جائے اور اگر وقت نے مہلت دی تو پی ایچ ڈی بھی کرلیں گے۔ محترم پروفیسر سید صاحب ایچ 8 کالج کے پرنسپل تھے۔ میرے محلے دار بھی ھیں اور انکے بیٹے میرے دوست بھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے پی ایچ ڈی کی نمل یورنیورسٹی اسلام آباد سے اور ھمیں بھی حوصلہ دے دیا۔
جمعرات کا دن تھا۔ سوچا داخلہ لے لوں اور رفاہ یونیورسٹی فون کیا تو انہوں نے کہا آن لائن فارم فل کریں مطلوبہ کاغذات جمع کروایں اور آج شام 6 بجے کلاس ھے کیونکہ کلاسز دوھفتے سے ھورھی ھیں۔ میں نے آفس اجازت کیلئے اپلائی کیا اور شام کو یونیورسٹی چلا گیا۔ اگلے دن فیس جمع کروادی اور رول نمبر بھی مل گیا کوئی پچاس لوگوں کی کلاس تھی اور میں انکا سب سے بزرگ کلاس فیلو۔ پہلی کلاس ڈاکٹر نجمہ صاحبہ کی تھی انھوں نے ھمیں لکھنا سکھانا شروع کیا اور درمیان میں ھی میڈم نبیلہ تبسم صاحبہ کے حوالے کرکے چلی گیئں۔ ڈاکٹر شبیر صاحب جو میرے پی ٹی وی کے بھی ساتھی تھے نے مجھے بہت پیار اور عزت دی اور ھمیں ریسرچ کے طریقے سکھائے،اگلے دن ایک صاحب کی کلاس تھی کرائسس کمیونیکیشن کی۔ نام تھا پروفیسر ارشاد احمد کلیمی۔ ساتھی طلبہ نے کہا بہت سخت استاد ھیں۔ وقت پر آنا ورنہ خود بھگتنا۔ جی بہتر۔ھفتے کو دس بجے کلاس تھی میں وقت پر پہنچ گیا۔ بطور فوٹوگرافر میری آنکھ کہے بہت حلیم طبیعت استاد ھیں کلاس فیلوز کے بقول شدید غصے والے ھیں۔ سمجھ نہ آئے آنکھ کی مانوں یا کلاس فیلوز کی۔ رفاہ یونیورسٹی جانے کی ایک ھی وجہ تھی اظہر نیاز بھائی کا وھاں ھونا۔ اور کلاسز ھورھی تھیں جمعرات، جمعہ شام چھ سے نو بجے تک اور ھفتہ دن دس بجے سے شام پانچ تک تھکا دینے والا کام تھا ۔ دفتر، اسائنمنٹس، فوٹوگرافی،ڈوکومینٹریز،سفر، فیملی سب مینج کرنا مشکل تھا چھوڑنے کا سوچ لیا لیکن استاد محترم کلیمی صاحب اور کچھ دوستوں کا حکم تھا جاری رھا اور آج پہلا سمسٹر ختم ھوگیا الحمدللہ، میری آنکھ سچی تھی استاد محترم ارشاد احمدکلیمی صاحب واقعی ایک حلیم طبیعت انسان ھیں بہت عرصے بعد ایک استاد ملا جس سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر شبیر صاحب نے ریسرچ کے طریقے سکھائے۔اور میرے لکھنے سوچنے کے طریقے بدل دیئے۔ڈاکٹر مسرور صاحب نے ھمیں میس کمیونیکیشن تھیوریز پڑھائیں اور ان کو لاگو کرنا سکھایا۔ نبیلہ تبسم صاحبہ نے ھمیں مائیکروسافٹ ورڈ کی کمال کمانڈز بتائیں ۔ ڈائریکٹر ریحان صاحب شاندار اور سادہ لوح استاد ھیں۔ ڈاکٹر معظم صاحب دلچسپ طبیعت کے حامل پروفیسر ھیں۔ ایک کلاس ھوئی پر مزا آیا، پروفیسر نعمان انصاری صاحب کا علم بھی کمال ھے پر انکو غصے کی ایکٹنگ بھی کرنا نہیں آتی وہ مسکراتے زیادہ اچھا ھیں۔ ڈاکٹر راجہ کاشف صاحب پروڈکشن کے آدمی ھیں۔ حافظ عمر فاروق بھائی، راشد بھائی، ضرار بھائی انتظامی امور کے ماھرین ھیں۔ آب آتے ھیں کلاس کی طرف بہت سے نئے دوست ملے، یاور عباس صاحب، ملک جاوید صاحب، عدنان صاحب، ھارون مظہر صاحب، زبیر بھائی، مضمل بھائی، مصباح بھائی، ولید بھائی، مطیع بھائی، شیراز بھائی، ابےعبداللہ بھائی، علی بھائی شہزادہ بھائی،سہیل بھائی اور بہت سی باجیاں۔ ھماری ایک کلاس تیسرے سمسٹر کے دوستوں ساتھ بھی ھوتی ھے میری کچھ دوستیاں ان سے بھی ھے۔ ھم پچاس لوگ شاید ایک اچھی درخواست بھی نہیں لکھ سکتے تھے۔ پروفیسر ارشاد احمد کلیمی صاحب اور نعمان انصاری صاحب نے گروپس بنا کر ھم سے نو عدد ریسرچ پیپر لکھوا دیئے اور جلد کتابی شکل میں چھپ جائیں گے۔ انشاءاللہ۔ آج بہت میرے علاوہ باقی سب کلاس فیلوز کو پتہ چل گیا کہ ارشاد احمد کلیمی صاحب کتنے شاندار استاد اور شفقت کرنے والے استاد ھیں۔ آج ھم نے اپنی ریسرچ کو ڈیفینڈ کیا اور الحمدللہ سب ساتھی کامیاب قرار پائے۔ اس ریسرچ سے بہت کچھ جاننے کو ملا ھندوستان کئا مظالم کررھا ھے اور کیاں کہاں علحیدگی کی تحاریک چل رھی ھیں۔ محترم استاد مسرور صاحب نے بھی گیارہ گروپس بنا کر ھم سے ریسرچ کروائی اور پریزینٹیشن لی۔ آج کلاس کے بعد فوٹوسیشن بھی ھوا اور سب نے تصاویر بنوائیں ۔ میں نے کیمرہ پہلی دفعہ یونیورسٹی میں نکالا۔ آج ھماری سہمی ھوئی کلاس نے مسکرانا شروع کردیا۔ شکریہ سب اساتذہ کا اور سارے کلاس فیلوز کا۔ امید ھے اب پڑھ ھی جائیں گے۔ پہلا سمسٹر ختم باقی رہ گئے تین۔ ھماری کلاس فیلو زینب جو تقریبا تین سال کی ھے جو اپنی والدہ کے ساتھ آتی ھے اور رفاہ یونیورسٹی کی سب سے کم عمر ایم ایس کی سکالر ھے۔ ماں بیٹی ایک ساتھ ایم ایس کریں گی۔ مجھے امید ھے علم میں مزید اضافہ ھوگا ڈگری ملے یا نہ ملے۔

Prev ایسا کیوں کیا
Next میں کیوں صفائیاں دوں

Comments are closed.