فیصلے 

فیصلے

تحریر محمد اظہر حفیظ

جے سارے ملک دے فیصلے کر، لئے نے تے ھن اے وی دس دیو کل پکانا کی اے تے پانا کی اے
میرے فرشتوں کو بھی نہیں پتہ یہ پانامہ کیا ھے اور پاجاما کیا ھے، سارا سوشل میڈیا اس سے بھرا پڑا ھے اور میں کچھ دن کیلئے سوشل میڈیا سے ھٹ گیا کہ سب دوست اپنا شوق پورا، کر، لیں تو واپس آ جاوں گا لیکن ابھی تک اس کا شوروغوغا ھو رھا، ھے تو سوچا جب مجھے بھی باقی لوگوں کی طرح کچھ پتہ نہیں اور وہ پی کر غل غڑاپہ کیے جارہے ھیں تو کیوں نہ میں بھی اس پر زور آزمائی کر لوں،
1993 این سی اے میں ھمارا تھیسز ڈسپلے تھا میرے بڑے بھائی محمد طارق حفیظ جو ھمیشہ سے ھی میرے پہلے سپورٹر ھیں ھر اچھے کام میں، تھیسسز میں بھی ساتھ ساتھ تھے، ڈسپلے ھوا تو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مختلف ڈیپارٹمنٹ کے کام دیکھ رھے تھے سب کلاس فیلو انکو جانتے تھے اور احترام بھی بہت کرتے تھے استاد بشیر کے مینیچر ڈیپارٹمنٹ گئے اور مینیچر دیکھ کر میری ایک کلاس فیلو کے کام پر تبصرہ کیا اور بہت پریشان حال واپس آئے پوچھا بھائی خیریت ھے تو بولے یار ایک تبصرہ کر بیٹھا جو غلط تھا یار ھوا کیا، وہ میں نے کہا آپ کے مینیچر میں آپ نے آئل کلر کا بہت اچھا استعمال کیا ھے تو وہ مسکرا کر بولی طارق بھائی مینیچر ھمیشہ واٹر کلر میں ھوتے ھیں اور بہت شرمندگی ھوئی میں نے کہا یار آپ کو سب جانتے ھیں آپ تبصرہ کرنے کی بجائے پوچھ لیتے اس کا میڈیم کیا ھے تو مسلئہ ھی نہ ھوتا، یار میں سمجھا تھا میرا بھائی آرٹسٹ ھے اس کو میں کام کرتے دیکھتا ھوں تو مجھے اندازہ ھے بالکل اسی طرح ھر کرپشن کرنے والا سمجھتا ھے اس کو کرپشن کا پتہ ھے اور پانامہ نام کی اس بحث میں الجھا ھوا ھے،
میں کرپشن کے 100% خلاف ھوں اور اللہ نے مجھے ھمیشہ اس سے بچائے رکھا، پچھلے دنوں شراکت این جی او، کے اشتراک سے پی ٹی وی اکیڈمی میں ایک تین روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا موضوع تھاایکٹ کا، نفاذ برائے کام والی جگہ پر جنسی طور پر عورتوں کو ہراساں کرنا ، بڑی سیر حاصل گفتگو رھی سب ہراساں کرنے کے طریقے بتائے گئے کچھ کے بارے میں علم تھا اور کچھ نئے تھے، جان کر اپنی کم علمی کا احساس ھوا کہ لوگ کہاں تک پہنچ گئے اور ھمیں پتہ ھی نہیں، اور ھمارے این سی اے کے سینئر ساتھی نے ھمیں فیروز اللغات سے کافی سارے الفاظ سے روشناس کرایا جو ھمارے علم میں نہیں تھے کہہ عورت کو ماں، بیٹی، بہن، دادی، نانی، چاچی تائی، خالہ، سالی، نند، دیورانی، جیٹھانی، سوکن، بیوی، سہیلی، دوست، پوتی، دوتی، مالکن، ملازمہ کے علاوہ بھی سو کے قریب نازیبا الفاظ سے بلایا جاسکتا ھے جو کہ ھماری لغت میں حیران کن پریشان کن اضافہ تھا، اور میں سوچتا ھی رھا یہ والی لغت ھمارے دور میں این سی اے نے کیوں پڑھانا بند کردی اور ھم جا کر انارکلی سے کتابیں ھی ڈھونڈتے رھے ان موضوعات پر جو اکثر ھندوستانی علماء نے تحریر، کی ھوتی تھیں اور ان کے ٹائٹل ھی بہت دل آویز ھوتے تھے نام بھی کچھ کوک یا کوکاکولا جیسے ھوتے تھے سب باتیں پوری بتانا لازم تو نہیں اور استاد صاحب نے بھی پوری طرح نہیں بتائیں،
استانی صاحبہ بھی کافی مردانہ وار خاتون تھیں اور تمام موضوعات پر بلا جھجھک بیان دیتیں تھیں فرمانے لگیں دو منٹ کے لیے آنکھیں بند، کریں فوراً کرلیں تمام شرکاء نے سوچا اب کوئی آنکھوں پر ھاتھ رکھے گا اور پوچھے گا بتاؤ میں کون اور آواز آئی آب سوچیے اگر اسلام کا قانون مرد عورت کو ایک نگاہ سے زیادہ نہیں دیکھ سکتا سب مرد نظر جھکا کر چلیں گے تو کیسا زمانہ ھو باقی لوگوں کا تو، نہیں پتہ پر میرے سامنے فلم چلنا شروع ھوگئ،
میک اپ کے بغیر شیمپو کے بغیر ایک ھی رنگ کے کپڑے ایک ھی طرح کے جوتے ایک طرح کے پرس اٹھائے بدحال خواتین گھوم رھی ھیں میک اپ کمپنیاں بند، ھوئی گئیں لان فیکڑیاں بند شیمپو بند ھر طرف آسانی ھی آسانی ھے اور باجیاں گاتی پھر رھی ھیں میں نئے کپڑے پہن کر جاؤں کہاں بال بناؤں کس کے لیے وہ شخص تو آنکھ اٹھانا ھی چھوڑ گیا گھر سے باھر جاؤں کس کے لیے،
میرے خیال سے لوگ متفق نہیں تھے بس ھنس رھے تھے
بہت کچھ سیکھنے کو اور جاننے کو ملا اور بہت سے نئے دوستوں سے ملاقات بھی،
اس میں کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے مختلف طریقہ کار کی وضاحت کی گئی جن کا ھم بطور مرد بھی شکار ھیں جیسا کہ اے سی آر کو بطور ہتھیار استعمال کرنا، دفتر بلا کر خود آفیسرز کا مصروف ھوجانا، اپنے ذاتی کاموں کے لیے آپ کو روکنا، بلاوجہ انکوائری نوٹسز، وارننگز اور بہت ساری باتیں جنکا شرکاء کو پتہ نہیں تھا علم میں لائی گیں،
اس سب کیے روکا جا سکتا ھے اس سلسلے میں سب کی تجاویز گروپ کی شکل میں لی گئیں اور اکیڈمی کے ڈاریکٹر صاحب نے پی ٹی وی کے مروجہ قانون میں شامل کروانے کی کوشش کی بھی یقین دھانی کروائی،
پتہ چلا اگر اب پی ٹی وی میں کوئی بھی ایسی حرکت ھوئی تو ھم جے آئی ٹی کے ممبر ھوں گے بس، یہی بات پانامہ کی سمجھ آئی اور انتظار ھے اس کی جے آئی ٹی بنے گی اس میں ھمارا نام بھی شامل ھوتا، ھے یا نہیں کیونکہ مجھے مالی کرپشن کا، کم اور مستورات کو ہراساں کا کیس، زیادہ لگتا ھے کیونکہ اس میں مریم نام کی بیٹی کا ذکر بار بار ان سو نازیبا الفاظ سے کیا جارھا ھے جو بقول استاد کے فیروز اللغات میں شامل ہیں اور عورت کو ان سے نہیں پکارا جانا چاھیے، ھم سب اس معاشرے کا حصہ ھیں جہاں سیاست میں مادر ملت فاطمہ جناح،محترمہ بے نظیر بھٹو، محترمہ نصرت بھٹو، محترمہ ریحام خان، محترمہ جمائما خان محترمہ عابدہ حسین، محترمہ نسیم ولی، محترمہ سمیرا ملک اور مریم نواز جیسی خواتین کی کردار کشی کرنا عین ثواب سمجھا، جاتا ھے، مجھے یاد ھے ایک اخبار کے مالک نے ایک اداکارہ سے ملنے کی خواھش کی انکار کی صورت میں ان کو ایڈز زدہ بیان کیا گیا، اگلے دن ایڈز زدہ اداکارہ کی نانی کی فوٹو شائع کی گئی اور کامیابی کی صورت نہ ھونے پر، تیسرے دن ایڈز زدہ اداکارہ کے گھر، کے صحن میں بکری بندھی ھوئی کی کیپشن کے ساتھ تصویر لگی ھوئی تھی۔
اللہ کا واسطہ ھے سیاست ضرور کیجئے لیکن ماؤں بہنوں کی عزت اچھال کر نہیں، خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت، سے ھو،
کرپشن کرنے والے کو ملک کو نقصان دینے والے کو، ضرورکڑی سزا ملنی چاھیے اور بہتان لگانے والے کو بھی،
اللہ سب کی عزتیں شرمیں محفوظ، رکھے امین

Prev میرے خواب اور میرا رونا
Next موٹر سائیکل

Comments are closed.