قبر

قبر
تحریر محمد اظہر حفیظ

ایک وقت تھا کہ لوگ قبروں کی کمائی کھاتے تھے سننا بھی عجیب لگتا تھا اور پھر حکومت کو خیال آیا کہ قبرستان کی جگہ ہم دیں تو کمائی بھی ہماری ہونی چاہیے ۔ ایک محکمہ اوقاف بنایا گیا اور سارے مزاراتِ اور انکی آمدن محکمہ اوقاف کے اختیار میں چلی گئی کروڑوں اربوں کے نذرانے اور چندے گورنمنٹ کو جانا شروع ہوگئے۔ اور یہ روزگار کا ٹیکسز کے علاوہ ایک نیاسلسلہ چل نکلا ۔
جب والدین کا انتقال ہوا تو پتہ چلا کہ اب قبر کی باقاعدہ فیس ہوتی ہے ۔ وہ ادا کی گئی اور انکو دفنا دیا گیا۔ یہ بھی سوچ آئی کہ جن کے لواحقین نہیں ہوتے جو لاوارث ہوتے ہیں انکی فیس کون ادا کرتا ہوگا۔
اس سال سننے میں آرہا ہے کہ اب قبروں پر بھی ٹیکس لگانے کا فیصلہ ہوا ہے ۔
اگر یہ ٹیکس سالانہ لگادیا جائے تو گورنمنٹ کی چاندی ہوجائے گی۔ جو لوگ غربت، بھوک افلاس سے مر رہے ہیں وہ بھی زندہ رہنے کی کوشش کریں گے۔ کہ ہمارے پاس تو جینے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو مرنے کیلئے اور مرنے کے بعد کے پیسے کہاں سے لائیں گے۔
پہلے آہستہ آہستہ زندگی مشکل کی گئی اور اب مرنا بھی مشکل کیاجارہا ہے۔
پریشانی میں لوگ سگریٹ پیتے تھے اور آہستہ آہستہ مرتے رہتے تھے۔ اب سگریٹ قیمتیں بڑھا کر اس کام کو بھی مشکل کردیا گیا ہے۔
سگریٹ نوشی بلا شعبہ ایک بری عادت ہے۔ پر جب بھی کوئی کے ٹو اور ایمبیسی سگریٹ پیتا تھا تو میں سوچتا تھا یار یہ بندہ جب اتنا سستا سگریٹ خریدتا ہوگا شرمندہ تو ہوتا ہوگا۔ پر اب گورنمنٹ نے انکو بھی قابل احترام اور قابل فخر بنا دیا ہے ۔ گولڈ لیف تو پانچ سو تک پہنچ گیا کوئی بات نہیں پر ایمبیسی فلٹر کو دوسو پندرہ کا کرنا یقیننا ایک قابل صد تعریف قدم ہے سوچا ہے ایک ڈبی بطور فیشن لیکر گاڑی کے ڈیش بورڈ پر رکھ لوں تاکہ لوگ جیلس ہو سکیں کہ رئیس زادہ ہے۔
سوزوکی گاڑیاں جو مرنے کے ویزے ہیں اب پچیس لاکھ سے اوپر قیمت پر چلی گئیں ہیں۔ گورنمنٹ مسلسل محنت کر رہی ہے کہ مرنے کو مشکل بنایا جائے تاکہ لوگوں کو زندگی سہل لگنا شروع ہوجائے۔
جب دین میں پڑھا کہ قیامت کے دن ایک ایک قبر سے ستر ستر مردے اٹھیں گے تو سمجھ نہیں آتی تھی کیسے پر دین کا حکم تھا اس لیے کبھی سوال نہیں اٹھایا۔ پر اس حکومت نے اس کام کو بھی سہل بنا دیا جیسے پہلے رہنے کیلئے مشترکہ خاندانی نظام ہوتا تھا اسی طرح جلد گورنمنٹ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے ذریعے مشرکہ خاندانی قبر کا نظام بھی جلد رائج کردے گی کہ مشترکہ قبریں بنائیں اور ٹیکس بچائیں اور دوسرا طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے قبرستانوں پر چھتیں ڈال کر اوپر ہاؤسنگ کالونیاں بنا دی جائیں اور اشتہار دیا جائے آپکی قبر آپکے پیاروں کے بلکل نیچے ۔ اس ہاوسنگ پراجیکٹ میں ہر گھر کی اپنی قبریں اور پارکنگ ہوگی۔ گود سے گور تک تمام انتظام آپکے گھر پر موجود ہوگا، آپ کو صرف کفن خریدنا ہوگا باقی انتظام ہم کر دیں گے۔
گورنمنٹ ضرور قبروں پر ٹیکس لگائے پر ان پر مزار بنا کر آمدن کے وسائل بڑھانے ہر بھی غور کرے ۔ اس سے نوکری کے بہت سے مواقع میسر آسکیں گے اور اگر قبر کھدائی اور تدفین کے کورس یونیورسٹیوں میں پڑھائے جائے تو کاروبار کے اور بھی مواقع نکل سکتے ہیں۔ اس کنسلٹنٹ کو ساری قوم کا سلام جو ایسے مشورے دیتا ہے۔ اللہ اس کو سزا کے طور پر طویل ترین عمر عطا فرمائیں وہ ساری قوم کو تو مرتے دیکھ سکے پر اپنی موت کو ترسے۔
اب سمجھ آئی کہ پرانے وقتوں میں بادشاہ اپنے مقبرے اور مزار کیوں بنواتے تھے۔ انکو پتہ تھا کہ آنے والے وقتوں قبروں پر ٹیکس لگے گاشاید دفنانے والوں کو تکلیف ہو۔ پر آنے والا حاکم وقت پھر ان قبروں پر داخلہ فیس لگا کر آمدن کا راستہ ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔
مجھے اب پتہ چلا ہے کہ گورنمنٹ کے ماں باپ نہیں ہوتے ورنہ انکو انکے مرنے کی فکر ہوتی۔
کہتے تھے کہ جانا سب نے اپنی قبر میں ہی ہے پر اب مشکل لگتا ہے ۔

Prev ڈھبہ
Next استاد محترم احسان علی قریشی صاحب

Comments are closed.