لئی

لئی
تحریر محمد اظہر حفیظ

راولپنڈی میں موجود نالہ لئی کو لئی اس لئے کہتے ھیں کہ شاید یہ ھر سال کئی جانیں لیتا ھے۔ ھر سال یہ بپھرتا ھے دھاڑتا ھے غراتا ھے لوگوں کے گھروں میں غنڈوں کی طرح زبردستی گھس جاتا ھےمال و دولت لوٹنا تو عام سی بات ھے مزاحمت کرنے والوں کی جان بھی لے لیتا ھے۔ بڑا ھی بدمعاش ھے۔ 1978 سے میری اسکی ملاقات ھے ۔ جب ھم گرمیوں کی چھٹیوں میں مریڈ حسن ڈھوک چراغ دین کے پاس آکر رھتے تھے۔ بلکل ساتھ ھی نالہ لئی کا پل تھا۔ بارشیں بھی عام تھیں بھلے وقت تھے۔ پہلی دفع جب لئی چڑھی تو پل پر کھڑے ھونے سے بھی ڈر لگتا تھا ایسے لگتا تھا کہ شاید پل چل رھا ھے یا پھر گر جائے گا۔ لوگوں کا سامان چارپائیاں، پیٹیاں، لکڑی کے شہتیر اور بھینسیں لئی میں بہتی ھوئی آرھی تھیں کچھ لوگوں نے تو اپنے بیٹوں کی کمر کو رسے باندھے ھوئے تھے وہ کسی چیز پر جمپ لگاتے اور اس کے ساتھ رسہ کھینچتے اور سامان یا جانور کنارے لگ جاتا تھا لوگ خوب داد دیتے اس کی کامیابی کی تالیاں بچاتے کہ اس کا انعام نکل آیا ھے کوئی نہ سوچتا کہ جس کا بہہ کر آیا ھے اس غریب کی بیٹی کا جہیز ھے یا پھر عمر بھر کی جمع پونجی۔ اب تو سارا ملک ھی نالہ لئی بنا ھوا ھے کسی کا سامان بہہ رھا ھے اور کوئی لوٹ رھا ھے۔42 سال سے میں اس نالہ لئی کو کھلا ھوتے دیکھ رھا ھوں۔ اس کی بھل صفائی کا سن رھا ھوں، اس کے اردگرد دو رویہ سڑکوں کا سن رھا ھوں ۔ اس پر چھت ڈال کر سڑک بنانے کا سن رھا ھوں ھمارے کچھ سیاستدان نالہ لئی کے نام پر سیاست کرتے ھیں جب یہ بپھرتا ھے تو فوج آتی ھے اور لوگوں کی امداد کرتی ھے کئی دھائیوں سے منتخب ھوتے سیاستدان اس کا کوئی حل نہیں نکال سکے۔ صرف نقشے پاس کروائے ھیں بس، کم از کم ریسکیو ٹیم ھی بنالیں جو ھنگامی حالات میں ان سب کی مدد کر سکیں۔ غالبا 2002 تھا جب پانی اتنا تھا کہ پلوں کے اوپر سے گزر گیا اور کئی علاقوں میں بیس بیس فٹ پانی تھا۔بہت سی اموات ھوئیں اور ھمارے سیاست دانوں نے لاشوں اور میتوں پر بھی سیاست کی۔ غریب آبادیوں کیلئے یہ ایک سنگین مسئلہ ھے، خاص طور پر گوالمنڈی، موھن پورہ، آریہ محلہ، ڈھوک حسو اس سے بری طرح متاثر ھوتے ھیں، پاک فوج کا شکریہ جو ھر وقت ھر ایمرجنسی کیلئے تیار رھتی ھے اور عوام کی بھرپور مدد کرتی ھے۔ ورنہ ھمارے بلندوبانگ دعوے کرنے والے سیاستدان تو عوام کو مروانے میں کوئی کثر باقی نہ چھوڑیں۔ یہ وہ سیاستدان ھیں جو دعوےدار تو تھڑے کی سیاست کے ھیں اور جنازے بھی تھڑوں سے ھی اٹھاتے ھیں۔ جنکو اگلے پانچ سال کی خبر ھوتی ھے لیکن نالہ لئی کا کچھ پتہ نہیں کیا کرنا ھے۔ نالہ لئی کا پھیلاو اب شاید سارے ملک میں پھیل چکا ھے جہاں وہ مختلف شکلوں میں غنڈہ گردی کرتا ھے اور ھر جگہ پاک فوج کو ھی امداد کیلئے آنا پڑتا ھے وہ بے شک کراچی ھو، بلوچستان ھو یا وزیرستان۔ نالہ لئی جان لیوا ھے ۔ پاک فوج سے درخواست ھے اس کا بھی وزیرستان،کراچی،اور بلوچستان کی طرح علاج کردیں۔ اس کی غنڈہ گردی اور بدمعاشی کو فلفور بند کیا جائے۔ اس کی صفائی اس پر منتخب ھونے والے ممبران نیشنل اسمبلی، پنجاب اسمبلی، ناظم، کونسلر سے کروائی جائے اور اس کو کھلا اور گہرا کرنے کیلئے انتظامات کئے جائیں۔ اس پر چھت اور سڑک والا منصوبہ بے شک نہ شروع کریں کیونکہ کچھ لوگوں نے پھر الیکشن لڑنا ھے اور کوئی تو کام ھو جو کہہ سکیں میں نے جرنل مشرف سے پی سی ون منظور کرایا،بزدار صاحب سے پیسے منظور کروائے۔ جنہوں نے کام کرنے ھوتے ھیں وہ راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی، میٹرو بس راولپنڈی، ایکسپریس وے، راول روڈ، مری روڈ، کمیٹی چوک انڈرپاس جیسے گھٹیا پروجیکٹ مکمل کروا کر بیرون ملک فرار ھوگئے ھیں۔ بہت ھی فراڈ لوگ تھے کاغذ کی کشتیاں بنا گئے اور باقی سب لوٹ کر چلے گئے۔ اور ھم نے تو پی سی ون منظور کروالیا ھے۔ اکیس سال ھوگئے اس کہانی کو سنتے ھوئے۔اور آپ نے یہ ایک بہترین کام کیا ھے۔ شیخ چلی کے خواب سے کالے دی نہاری تک سے اقتباس

Prev میں کیوں صفائیاں دوں
Next جب ھم چھوٹے تھے تو اچھے تھے

Comments are closed.