لائلپورکا پینڈو

لائلپورکا پینڈو

تحریر محمد اظہر حفیظ

پینڈو ایک سادہ اور پرخلوص انسان ہوتا ہے پر کس کس کو یہ بات سمجھائی جائے۔ ایک لطیفہ سنتے ہیں کہ ایک بوڑھی اماں سڑک کنارے کھڑی تھی میرے جیسے پینڈو نے دیکھا انکا ہاتھ پکڑا اور سڑک کراس کروادی۔ اس کے بعد بوڑھی اماں نے خوب بد دعائیں دی کہ تیرا ککھ نہ روے ، بڑی مشکل نال سڑک پار کیتی سی۔

ساہ لین واسطے رکی سی تے توں فر دوسرے پاسے چھڈ گیا ایں۔ ساری زندگی دوسروں کی مدد کرنے میں گزار دی اور پتہ چلا کہ سب کو سڑک غلط پار کروا دی ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا لطیفہ تھا کہ لیبارٹری سے مجھ جیسا ایک پینڈو ٹیسٹ کروا،کر نکلا وہاں ایک بچہ بیٹھا رو رہا تھا بیٹے کیا بات ہے جی بھوک لگی ہے نزدیکی سٹور سے اس کو جوس اور بسکٹ لا کر دیئے اور وہ خوش ہوگیا جب چلتے چلتے تھوڑا دور گیا تو کچھ آواز آئی اللہ تیرا بیڑا غرق کرے بچے داخالی پیٹ سی ٹی سکین کروانا سی ساری رات بھوکا رکھیا اور کوئی بیوقوف اس کو جوس اور بسکٹ کھلا گیا۔

اپنی زندگی پر غور کیا تو ساری کی ساری ایسی ہی ہے، جس کی بھی دل سے مدد کرنے کی کوشش کی اس نے بعد میں یہ ہی سمجھایا کہ جناب کی وجہ سے میں ترقی نہیں کرسکا۔ میراآپ کو اندازہ نہیں کتنا نقصان ہوگیا۔ اگر آپ میری مدد کو نہ آتے تو میں پتہ نہیں کہاں سے کہاں ہوتا، شاید میں پکاسو ہوتا یا پھر شاہ رخ خان ہوتا۔

اسی طرح زندگی گزرتی رہی، اور مجھے عقل نہ آئی اور نہ ہی آسکتی تھی جس کو بھی دیکھا اس کی مدد کو چل پڑے اورپھر ان سے بے شمار سنیں بھی۔ کئی دفعہ الله کے آگے رو پڑا یا اللہ تونے اتنا سادہ کیوں بنایا ہے۔ جس کو ول فریب کی سمجھ ہی نہیں ۔ اور دنیا مجھ سے فائدہ اٹھاتی ہے گالی دیتی ہے اور نکل جاتی ہے۔ ہمارے گھر میں الحمدللہ دس لوگ رہتے ہیں اور ان میں میں سب کے ساتھ ہوتے ہوئے اکیلا رہتا ہوں۔ مجھے کبھی تو اپنی سادگی اور پینڈو پن اچھا لگتا ہے اور کبھی کبھی نفرت ہونے لگ جاتی ہے۔

کچھ گاڑیوں کے اگلے پہیوں میں جان ہوتی ہے اور کچھ کے پچھلے پہیوں میں جان ہوتی ہے میری ساری زندگی کوشش رہی کہ میں گاڑی کا جان والا حصہ بنوں پر مجھے بعد میں احساس ہوا کہ سب مجھے سٹپنی کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور غیر ضروری سمجھتے ہیں۔

شاید میں زندگی میں اپنی اہمیت ثابت نہیں کرسکا۔ اور اب کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔ اب اگر کہیں سے آواز آئے کہ مجھے تم سے محبت ہے تو مجھ تک آواز مجھے تم سے نفرت ہے بن کر پہنچتی ہے۔ اس لئے اب آوازوں پر توجہ دینا بھی چھوڑ دی ہے۔ محبت اور نفرت کی مجھے سمجھ نہیں ہے کیونکہ دنیا نے جس سے بھی نفرت کی میں نے ہمیشہ اس کو محبت دی اور بدلے میں نفرت وصول کی ۔

جب میں ان سب چیزوں سے نکل گیا تو نئی زندگی شروع کرنے کا سوچا اور اپنی اوور ہالنگ شروع کروالی ، جگر نیا لگوا لیا، خون سارا نیا لگ گیا، اب ایک نیا لائلپوری پینڈو پھر زندگی گزارنے کے لئے تیار کھڑا ہے اور مشکور ہے ان سب کا جو الله کے فضل سے وسیلہ بنے میری اس زندگی کے ، اور جن کو میں نفرتیں سمجھ رہا تھا وہ محبتیں تھیں اور جو محبتیں تھی وہ سب نفرتیں تھیں۔ ایک زمانہ میرے ساتھ کندھے سے کندھے ملائے کھڑا ہے جو کہتا ہے کہ ہم تیرا ماضی ہیں اور تیرے ساتھ کھڑے ہیں تیرے حال اور مستقبل میں ۔ سمجھ اب بھی نہیں آرھی اس پینڈو کو کوئی تو اپنا بنے اور سمجھائے یہ سب کیا ہے۔ کہیں پڑھا تھا مرنے کے بعد انسان کیا سمجھتا ہے شاید وہ سمجھتا ہے کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ خواب تو میں پچھلے اکاون سال سے دیکھ رہا ہوں اب سمجھ نہیں آرہی کہ یہ خواب کسی زندہ انسان کے ہیں یا پھر ۔۔۔۔

دیوار پر لگی تصویر کے

Prev تہانوں کی
Next ذرا سوچئے

Comments are closed.