ماحول

ماحول

تحریر محمد اظہر حفیظ

ایک فلم میں ایک اداکار سر پر ٹوکرا رکھے اور دونوں ھاتھوں میں مرغیاں پکڑے جارھا ھوتا ھے اور سامنے سے آتی لڑکی کہتی ھے تم میری عزت لوٹنے لگے ھو تو وہ کہتا ہے، بھلا کیسے میرے دونوں ھاتھوں میں مرغیاں ھیں اور سر پر ٹوکرا تو میں کیسے یہ حرکت کر سکتا ھوں، تو وہ کہتی ھے مجھے پتہ ھے تم دونوں مرغیاں ٹوکرے کے نیچے بند کرو گے اور میری عزت لوٹ لو گے، کچھ لوگ خود اس طرح کا ماحول بنانے کی کوشش کرتے ھیں، کہ عزت لوٹی جاسکے، حامد میر، ابصار عالم، اسد طور شاید اپنے مسئلے کو اتنا بہتر طور پر نہیں اچھال سکے جتنے اداروں کے بیوقوف دوست اچھالنے میں انکی مدد کر رھے ھیں، اداروں کو بھی سوچنا چاھیئے کہ کون انکے دوست ھیں اور کون ان کے دوست کے بہروپ میں دشمن، کچھ دن سے ایک صحافی دوست کی بیٹی کی تصاویر اداروں کے بیوقوف دوست شیئر کر رھے ھیں تاکہ صحافی بھی بدلے کے طور پر ایسی ھی تصاویر شیئر کریں اور شغل میلہ لگا رھے، بہن بیٹیوں کی تصاویر شغل نہیں ھوتیں، گالی کا جواب گالی ھوتا ھے اور احترام کا جواب احترام، اب فیصلہ ساز اداروں کو فیصلہ کر لینا چاھیئے کہ انھوں نے دشمن سے لڑنا ھے یا اپنی ھی عوام کو دشمن سمجھ کر ان سے لڑنا ھے، موٹروے پولیس اور عام پولیس میں فرق صرف رویے کا ھے، لوگ موٹروے پولیس کی عزت کرتے ھیں کیونکہ وہ عزت سے پیش آتی ھے اور عام پولیس کا رویہ ھی کچے اور پکے کے ڈاکو بناتا ھے، سفر کرنا میری مجبوری ھے کیونکہ فوٹو کھینچنے کیلئے موقع پر جانا ضروری ھوتا ھے اس سلسلے میں بہت سے ناکے اور اینٹری پوائنٹ آتے ھیں جہاں عوام کو کئی کئی گھنٹے کھڑا ھونا پڑتا ھے اور اداروں کا رویہ بھی تضحیک آمیز ھوتا ھے، اگر گھر کے بڑوں اور عورتوں کے سامنے آپ کی بے عزتی ھو تو اس کو بھلانا شاید مشکل ھوجاتا ھے، تو کیسے ممکن ھے کہ اسکو پر امن پاکستانی دوبارہ بنایا جاسکے اور اداروں کا احترام بھی کروایا جاسکے، ھمارے اداروں کو کم از کم یہ ضرور پتہ ھونا چاھیئے کہ وہ ھمارے ادارے ھیں تاکہ لوگ بھی انکو اپنا ادارہ سمجھیں، بارہ اکتوبر 1999 کے بعد ھمیں دفتر جاتے ھوئے ایسے چیک کیا جاتا تھا جیسے ھم پر کسی اور ملک کا قبضہ ھوگیا ھو، جب احتجاج کیا تو میرے علاوہ سب کی چیکنگ جاری رھی، گاڑی سے نیچے اترو، ھاتھ اوپر اٹھاو، اوئے کہاں سے آرھے ھو، اوئے کہاں جارھے ھو، مجھ سے یہ لہجہ برداشت نہیں ھوتا بے شک وہ میرے والد کا ھو یا کسی ادارے کا ، پاکستان میرا ملک ھے میں اس کا اول درجے کا شہری ھوں مجھے آزادی ھونی چاھیئے اس ملک میں آزادانہ سفر کرنے کی، اگر آزادی نہیں دے سکتے کوئی دوسرا ملک تجویز کر دیجئے کیونکہ میرے ذھن میں تو کوئی اور ملک نہیں ھے، میرا جینا میرا مرنا اسی ملک کیلئے ھے، اپنے لوگوں کو اپنا سمجھ کر ڈیل کیجئے سب مسائل ختم ھوجائیں گے انشاءاللہ، بے عزتی کوئی بھی برداشت نہیں کرتا بے شک وہ ادارہ ھو یا ایک بیچارہ،

پراپیگنڈا بہت ضروری ھے لیکن بہتر ھے دشمن ممالک کے خلاف کریں اپنے لوگوں کو اور اپنے اداروں کو بخش دیں، رستم زماں گاما پہلوان نے بہت خوب کہا تھا کہ مجھے رب نے طاقت اس لئے نہیں دی کہ کمزور پر آزماتا رھوں، میرے طاقتور لوگوں کو بھی سوچنا ھوگا، اگر واقعی ھم ففتھ جنریشن وار کا شکار ھورھے ھیں تو اس کے مقابلے کیلئے پڑھے لکھے لوگوں کو آزمائیں، ضروری نہیں ھر کام بندوق سے ھی ممکن ھو، میری سب اداروں سے درخواست ھے باڈر پر اور باڈر کے پار تک لڑائی کو رکھیں اس کو ملک کے اندر مت آنے دیں، سوچنا، لکھنا، جوڑنا، کھولنا ، توڑنا مختلف عمل ھیں ان کیلئے مختلف لوگ رکھئے سب تالے ایک چابی سے نہیں کھلتے ھوتے، ماحول صلح صفائی کا بنائیے، لڑائی کا نہیں، اپنوں سے کون لڑتا ھے، ادارے بھی ھمارے، صحافی بھی ھمارے، عوام بھی ھمارے، ملکر دشمن کا مقابلہ کریں دشمن کی چال کا شکار مت ھوں، جو غلطی پر ھو اس کو قانون کے ھاتھ میں دیں قانون ھرگز بھی ھاتھ میں مت لیں، مہربانی ھوگی، وہ لکی ایرانی سرکس ھی ھے جس میں نشانہ باز اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کرکئی خنجر اپنی بیوی پر پھینکتا ھے اور اسکی بیوی اس کی مہارت کی وجہ سے محفوظ رھتی ھے، یہ ضروری نہیں ھے کہ پٹی باندھ کر جب بھی خنجر پھینکا جائے وہ نشانے پر ھی لگے نشانہ غلط بھی ھوسکتا ھے کسی کی جان بھی جا سکتی ھے، لہذا آنکھوں سے پٹی اتاریئے اور دیکھئے ھم آپ کے اپنے چاہنے والے ھیں آپ کے اپنے پاکستانی، ماحول دوستی کا بنائیے اسی کی پاکستان کو ضرورت ھے،

Prev جنت الفردوس
Next جب ھم بہادر ھوئے

Comments are closed.