میاں عبدالقیوم 

تحریر فوٹوگرافر محمد اظہر حفیظ
میرے بڑے پھوپھو زاد بھائی میرے آئیڈیل تھے میں بڑا ھوکر انکی طرح بننا چاہتا تھا. گاوں کا ھر کام وہ ھنسی خوشی کرتے تھے ان کے گھر کے باہر ھر وقت ایک میلے کا سماں بندھا رھتا تھا لوگ آرھے ھیں جا رھے ھیں اور جو بچہ اس طرف سے گزر گیا اسکا باقی دن خدمت گزاری پر گزر گیا اظہر یار اندروں لسی لے آ اظہر اندروں چائے لے آ,آظہر امی نوں دس دس بندیاں دی روٹی بنا دیں ھم اپنی پھوپھی کو خالہ جی کہتے تھے اکثر چیزیں دیتے دیتے خالہ جی لسی کا برتن بھرتی اور اس پر مکھن کا پیڑا رکھ کر کہتی باو عبدالقیوم صاحب دے کم نہیں مکنے جا تیری امی اڈیکدی ھونی اے اور لسی گھر لے جا جی اچھا خالہ جی اوئے اظہر کتھے چلا بھائی جان گھر لسی دے کے آیا انکو بھی پتہ ھوتا تھا اب نہیں آئے گا ھم اکثر راستہ بدل کر جاتے تھے کہ اگر عبدالقیوم بھائی نے دیکھ لیا تو جان پھنس جائے گی اور جواب دینا امی ابو نے سکھایا ھی نہیں تھا,یوں زندگی گزر رھی.تھی گاوں میں کبھی پولیس نہیں آئی تھی سب فیصلے مل بیٹھ کر کر لیتے تھے عبدالقیوم بھائی ضلع کونسل کے ممبر ھونے کے ساتھ.ساتھ گاوں کے نمبردار بھی تھے تمام کام خوش اسلوبی سے کرتے تھے علاقے کے ممبر نیشنل اسمبلی جو بھی ھو وہ عبدالقیوم بھائی کی مدد سے ھی.بنتے تھے ھماری برادری کے بہت زیادہ ووٹ تھے, میں اور ناصر بھائی چھوٹی موٹی لڑائیاں لڑتے رھتے تھے اور شکایت بھائی پاس آتی تھی ایک دن عبدالقیوم بھائی کہنے یار تسی کی روز الامےلے کے آ جاندے ھو نمبرداراں دے مونڈے او کوئی وڈا کم کرو کسے دا سر پھاڑو کسے دی لت پنو وہ مذاق کر رھے تھے ھم سمجھے اجازت مل گئی اور اگلے ھی دن ماکھا ھمارے گاوں کے واحد عیسائی خاندان کا لڑکا جن.کو گاوں کی صفائی کے لیے گاوں میں بسایا ھوا تھا ,ماکھا ھمارے ساتھ گاوں میں سکول کے میدان میں پیٹھو گرم کھیل رھا تھا اس کی ماڑی قسمت اس نے کچھ کہہ دیا اور ھم نے زندگی کا پہلا سر پھاڑ دیا ناصر بھائی میرا چچازاد بھائی اور میرا لنگوٹیا یار نے اینٹ اٹھائی اور ماکھے کا سر لہو لہان ماکھا روتا ھوں گھر چلا گیا اور ھم دونوں اپنے گھر کی طرف, میں نے دیکھا ماکھے کی.ماں ھم سے پہلے ھمارے گھر داخل ھو رھی ھے اور ماکھا بھی ساتھ ھے عرض کی ناصر یار تو باھر رک میں ذرا حالات کا جائزہ لے لوں, امی بہن کی ھویا ماکھے نوں آپا جی تہاڈے منڈیاں نے ماریا اے امی نے کچھ پیسے دیتے ھوئے کہا بہن منڈے دی پٹی کرواو تے میں اینانوں پوچھدی آں وہ چلی گئی تو میں سامنے نظر آگیا امی غصے سے ایک الٹا ھاتھ میری چھاتی پر رسید کیا اور پوچھا یہ ھمت کہاں سے آئی اور ناصر کدھر ھے میں نے روتے ھوئے جواب دیا عبدالقیوم بھائی نے کہا تھا سر پھاڑا کرو کہنے لگیں ناصر نوں چھڈ تے عبدالقیوم صاحب نو بلا,گھر کے باھر بھائی بیٹھے تھے بھائی جان امی جی بلاندےنے جی اچھا اور چل پڑے میرے ساتھ جی مامی جی, اے کی کم شروع کیتا اے تسی کی ھویا مامی جی امی نے ساری کہانی سنا دی اور عبدالقیوم بھائی ھنسنےلگے مامی جی میں تے مذاق کیتا سی کہہ اے لڑائی جھگڑے توں باز آجان تے ایناں کم ھی پا دیتا تسی ماریو نہ میں سمجھا دینا,اور یوں ھماری جان خلاصی ھوئی,تسی منڈےبدمعاش بنانے نے بھائی ھنستے ھوئے پھر آکر باھر بیٹھ گئے اور یوں زندگی گزرتی رھی,پھر ھماری بدتمیزیوں سے تنگ آکر ھم راوالپنڈی آگئے اور ناصر بھائی فیصل آباد چلے گئے وقتا فوقتا بھائی آتے رھتے پہلی دفعہ 1978 میں لاھور دیکھنے ھم عبدالقیوم بھائی کی گاڑی اور ڈرائیور ساتھ گئے تھے,عبدالقیوم بھائی بہت احترام کرنے والے شخص تھے 1995 اگست میں عبدالقیوم بھائی 14 اگست کو ھمارے پاس آئے میں گدون آمیزئی پیپسی کی فیکڑی گیا ھوا تھا واپسی پر صدر راولپنڈی برگر ایکسپریس پر بیٹھا تھا بہن کا فون آگیا باو کتھے او جی خیریت باو عبدالقیوم بھائی دی لت ٹٹ گئی اے فورا عزیز نرسنگ پہنچ جی اچھا, سیدھا وھاں پہنچا بھائی کی زیادہ خون بہنے کی وجہ سے رنگ پیلا ھو گیا تھا میں رونے لگ گیا کہنے لگےکی ھویا بولا تہاڈا رنگ پیلا پے گیا ھنستے ھوئے کہنے لگے چنگا اے گورا ھوگیا تو فکر نہ کر میری گل سن ماما جی نو ں نہ پتہ لگے تہاڈے محلے دا منڈا سی اس نے سکوٹرماریا لت ٹٹ گئی نصیر نام سی پاس بیٹھ کے معافی منگن لگ پیا انکل غلطی ھو گئی میں کیا نس جا میرے ماما جی آگئے تے تینوں تھاں مار دین گے اور جائے نہ بڑی مشکل نسایا تے منڈے نوں گھر بھیجیا اطلاع کر,بھائی جان جب بھی آتے ساتھ خدمت گزار ھوتا تھا ماما جی مجھے ھسپتال لے آئے توں وی نہ دسی پہلے ڈاکٹر اشتیاق نے پلیٹس ڈالی بہت لالچی ڈاکٹر تھا پھر کہنے لگا راڈ ڈالنے ھیں انکو شوگر ھے اور دوبارہ آپریشن کردیا کئی سال انکی ٹانگ نہ جڑ سکی لوگوں کے کام آنا میں نے ان سے ھی سیکھا پھر اب میں بڑا ھو چکا تھا اکثر فون آجاتا یار اظہر صاحب بھلا جرنل مشرف نال اپنا تعلق اے اور یار لاھور کسے نوں کہدے,جی بھائی جان اس طرح وہ اکثر کام مجھے کہتے تو مجھے لگتا کہ میں بھی اب میاں عبدالقیوم بن گیا ھوں جس کو سب کام کہتے ھیں وہ اب مجھے کام کہتے ھیں بے شک وہ ھمارے خاندان کا فخر تھے مجھے پتہ چلا انکو فالج کا اٹیک ھوا ھے میں پھر رونے لگ گیا تین دن بے ھوش رھنے کے بعد میرے عبدالقیوم بھائی کا انتقال ھو گیا کل میرے گاوں کے پرائمری سکول کے گراونڈ میں جنازہ ھے جہاں بیٹھ کر وہ سب فیصلے کرتے تھے اسی جگہ سے انکا جنازہ اٹھایا جائے گا دل اداس ھے آنکھیں پرنم ھیں میرا بھائی عبدالقیوم اب اس دنیا میں نہیں رھا,سب سے دعا کی درخواست ھے اللہ انکے لیے آسانیاں کریں امین

Prev سیانے لوگ
Next فیصلے

Comments are closed.