میری خواھشیں

میری خواھشیں

تحریر محمد اظہر حفیظ

رب کریم کے کرم کی بات ھے جو سوچتے ھیں عطا ھوجاتا ھے،

کبھی مشکل اور آسانی کو نہ دیکھا اور نہ سوچا، بس اس کی عطا کو دیکھا اور شکر بجا لایا،

جو سوچا میرے رب نے عطا کردیا، اچھے والدین، اچھے دوست، اچھی نوکری، اچھےبہن بھائی، اچھی اولاد، اچھی تصویریں، فوٹوگرافی کی نمائشیں، لکھنے بیٹھوں تو شاید باقی زندگی کم ھے، حرم میں والدین بیوی بچوں ساتھ حاضری، مسجد نبوی کے دیدار، اپنے مقدر پر ھمیشہ رشک آتا ھے، شکر الحمد للہ، کبھی سوچا سیاچن دیکھتے ھیں، کبھی سوچا شنگریلا دیکھتے ھیں، کبھی سوچا مکلی کا قبرستان دیکھتے ھیں، کبھی شاہجہاں مسجد ٹھٹہ دیکھنے کا سوچا، کبھی غازی مسجد بھونگ دیکھنے کا سوچا، کبھی ھنزہ دیکھنے کا سوچا، کبھی جا مع مسجد سکھ چین دیکھنے کاسوچا، کبھی شالامار باغ دیکھنے کا سوچا کبھی جہانگیر کا مقبرہ دیکھنے کا سوچا، کبھی لاھور قلعہ دیکھنے کا سوچا، میرے رب نے دکھایا اور عزت احترام کے ساتھ دکھایا، میں بس دیکھتا رہتا ھوں اور سوچتا رہتا ھوں، اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے، میری زیادہ زندگی صحت کے ساتھ گزری اور کچھ بیماری کے ساتھ میں نے دونوں کا مزا لیا، زیادہ زندگی والدین کے ساتھ گزری اور کچھ ان کےبغیر دونوں ھی اچھی ھیں کچھ دعائیں لیتے گزر گئی اور کچھ دعائیں کرتے گزر گئی، اولاد، بیوی، بہن، بھائی، دوست سب ایک سے بڑھ کر ایک عطا ھوئے، آفتاب افضل میرے کلاس فیلو اور ایک عظیم دوست ھیں آج کچھ طبعیت ناساز تھی فون آیا، پیا جی سارے کام کرکے سیدھے میرے پاس آجائیں، کہیں اور نہیں جانا، یار وہ باجی کی طرف جانا ھے,ایک دفعہ کہہ دیا ھے نہ بس اور میں نے وسیم بھائی کو فون کیا یار آفتاب کی طرف جارہا ھوں صبح آوں گا، وہ بھی ھماری دوستی کو سمجھتے ہیں اجازت دے دی، کوشش تو کرتا ھوں کہ کوئی دوست ناراض نہ ھو، پر میری بھی کچھ مجبوریاں ھیں، گستاخی ھو ھی جاتی ھے، سب سے معذرت خواہ ھوں، کچھ تو معاف کردیتے ھیں کچھ معاف نہیں کرتے یہ بھی اچھا لگتا ھے اسی بہانے ان کے دل و دماغ میں رھتا ھوں، اور کیا چاھیئے، جب آپ کو بھلانے کیلئے دوست یاد کریں کہ اس کو بھولنا ھے اور یہ حرکت مجھے بہت پسند ھے، بھلانے کیلئے یاد رکھنا ، آج ایک جگہ گیا وھاں بجلی کا کچھ سامان پڑا تھا ایک ڈبے پر لکھا تھا کہ یہ خراب ھیں، استعمال نہیں ھوسکتا، مجھے اچھا لگا کہ کبھی آپ کو خراب بھی ھونا چاھیئے تاکہ استعمال نہ ھوسکیں، کیونکہ سیدھے کیل تو ٹھونک دیئے جاتے ھیں اور ٹیڑھے پھینک دیئے جاتے ھیں، جو ٹھیک تھے ان سے بجلی گزر رہی ھے اور جو خراب ھیں آرام سے پڑے ھیں،

جامع مسجد سکھ چین دیکھنے کا اتفاق ھوا، کل رات تقریبا تین گھنٹے سویا اور جامع مسجد سکھ چین لاھور ھی دیکھتا رھا، محترم بھائی ساجد عبداللہ کا شکریہ جنہوں نے ایک تصویر دکھا کر اس تڑپ کو جگایا، بخار میں لاھور کا سفر کیا اور جو مسجد دیکھنے ترکی جانا تھا وہ سامنے تھی، بلیو مسجد ترکی، شکریہ امتیاز صاحب چیف ایگزیکٹو آفیسر سکھ چین گارڈنز لاھور جنہوں نے اس کو ممکن بنایا، اور کچھ ویڈیوز اذان کیلئے اور کچھ فلر سکرین پر چلانے کیلئے بنائے، ایک اور خواھش تکمیل تک پہنچی، مسجد کی حرمت کو مدنظر رکھتے ھوئے فوٹوگرافی کی اجازت نہیں ھے، میری درخواست پر مسجد کھول دی گئی اور زندگی کے کچھ گھنٹے میں ترکی میں سیاحت کے مزے لیتارھا، کام کی کوالٹی کو ھر لیول پر مدنظر رکھا گیا ھے، اور پاکستان میں ایک شاندار مسجد کی تکمیل کا سہرا سکھ چین گارڈنز کی انتظامیہ کو جاتا ھے، شکریہ

Prev مکھنا
Next بنتے بگڑتے دیکھنا

Comments are closed.