میرے اپنے

میرے اپنے

تحریر محمد اظہر حفیظ

زندگی بھر من مانی کی اور اکیلا ہی چلتا رہا۔ جو غلط لگا اس کو غلط کہا جو درست لگا اس کو درست کہا۔ تصویر، تحریر ہمیشہ سے اپنی تھی ۔ نہ کبھی تصویر چوری کی اور نہ کبھی تحریر۔

میں نے سنا تھا سچ بولو گے تو اکیلے رہ جاو گے۔ سوچتا تھا یہ راستہ تم نے خود چنا ہے اب بھگتنا بھی خود پڑے گا۔ میں اس کیلئے ذہنی طور پر مکمل تیار تھا۔

مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی کہ میں جگر ٹرانسپلانٹ جیسی بڑی سرجری کیلئے جارہا تھا۔ مجھے اس کا کوئی منفی پہلو بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔

مجھے یقین تھا کہ سب ٹھیک ہے اس لئے مطمئن تھا۔

چیک اپ شروع ہوئے طے پاگیا جگر ٹرانسپلانٹ ضروری ہے۔ اب ڈونر چاہیئے تھا۔ سوچا میرا تو یہ مسئلہ ہی نہیں ہے جس نے ٹھیک کرنا ہے ڈونر بھی وہی بھیجے گا۔

میرابڑا بھائی محمد طارق حفیظ، میری بیگم سعدیہ اظہر، میری بیٹی علیزے اظہر، بیٹی فاطمہ اظہر، بیٹی عائشہ اظہر ، بول ٹی وی کے صدر سمیع ابراهيم بھائی، اشفاق بھائی ترامڑی چوک والے فوٹوگرافر اور بہت سے دوست بغیر پوچھے ڈونر بننے کی لائن میں شامل تھے۔ میڈیکل ضرویات کے مطابق بیٹی علیزے اظہر کو اس عظیم کام کے لئے چن لیا گیا ۔

سب ٹیسٹ ہوئے سب ٹھیک تھا۔ ہم مسکرا رہے تھے۔ کچھ دوستوں نے باقی ذمہ داریاں سنبھالنے کی درخواست کی، عمیر غنی بھائی، بیٹاعبدالوارث حمید ، یاسر نثار بھائی، باجی رضوانہ عرفان، شازیہ مرزا، سعدیہ زینب، علی فراز اور بہت سے دوست خون کابندوبست کر رہے تھے۔ سب میرے پرانے دوست ہیں ۔

باجی رضوانہ عرفان نیشنل کالج آف آرٹس کی ہماری جونیئر ہیں اور این سی اے گروپ کی ممبر ہیں ملاقات ٹرانسپلانٹ والے دن ہی ہوئی۔

کئی بوتل خون کے بندوبست کے ساتھ سب ڈونرز کیلئے ناشتے کا بندوبست اور روزانہ کی بنیاد پر میری بیگم کی دلجوئی اور دعائیں کیا بتاوں اللہ نے ایک بہن اور عطا کردی۔ مجھے سوشل میڈیا کی اس اچھائی کا اندازہ نہیں تھا۔ شکریہ میری بہن۔

آفتاب افضل، فائق مغل، احمر رحمن تواپنے جگر ہیں انھوں نے جو کیا وہ انکا کام تھا۔ انکو کیا کہنا۔

میری ماؤں جیسی بہن باجی امتیاز انکا بیٹا میرا بھائی وسیم احمد اور اسکی فیملی، بھائی عظیم احمد اور اسکی فیملی، بیٹی مصباح منظور اور اسکی فیملی کی محبتوں پر لکھنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں ۔ اس سارے وقت میں سائے کی طرح ساتھ ساتھ۔ سب کام چھوڑ کر چار نومبر 2021 سے یہ سب مجھے اور میری فیملی کو سنبھال رہے ہیں۔ یا اللہ تیرا شکر ہے ایسے پیارے فرشتے میرے اپنے ہیں۔

تنویر اصغر بھائی تین ہفتے صبح سے رات گئے تک ہسپتال میں رہے سب ضرویات کا خیال رکھا۔ توقیر اصغر بھائی بھی موجود تھے۔

عثمان جاوید صاحب، عمران جاوید صاحب، باجی عظمی صاحبہ بھی سپورٹ کیلئے موجود تھیں ۔

میاں سیف الرحمن ، میاں نوید الرحمن میرے بچپن کے دوست میرے بھائی ہر طرح کی مالی معاونت کیلئے 24/7 موجود تھے۔ یہ بھی ایک ذہنی سکون کا وسیلہ تھا۔ کچھ دوست خانہ کعبہ میں دعا کر رہے تھے، کچھ دوست روزے رکھ ریے تھے، درود تنجینہ پڑھا جارہا تھا، حسن رشید رامے بھائی کئی قرآن مجید پڑھ اور پڑھوا چکے تھے، صلاح الدین بوبی مدرسوں میں قرآن خوانی کروا رہا تھا، پتہ نہیں کہاں کہاں صدقے دیئے جارہے تھے ، وکرم لال وکی، شعمون، رابیکا، ولفگن، اور بہت سے دوست چرچ میں عبادات کروارہے تھے، حافظ احمد ہر نماز میں جمعہ میں صحت کیلئے دعا کر رہے تھے۔ ہر طرف دعائیں تھیں اور میں مطمئن تھا کیونکہ اتنے عزیز، دوست، احباب، طالبعلم، ساتھی دعاگو تھے کہ کیا بتاوں ۔

سچ بات یہ ہے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ ہم ایک دس گھنٹے کی سرجری سے گزر آئے ہیں۔ شکر الحمد لله ، شکر الحمد لله

اللہ کے فضل سے صحت کی طرف سفر جاری ہے ، انشاء الله آپ سب کی دعاوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سفر بھی بغیر کسی مشکل سے گزر جائے گا ۔

ابھی تین ماہ ملنے کی اجازت نہیں ہے جسم کا مدافعتی نظام زیرو کیا ہوا ہے جس وجہ سے انفیکشن فورا ہوسکتا ہے۔ اس لئے تھوڑا وقت اور چاھیئے پھر انشاء اللہ ہم سب ساتھ ہونگے۔

جو بات مجھے میرے رب نے سمجھائی

آپ سب کا بھلا کریں آسانیاں کریں، اللہ اور اس کی مخلوق آپ کے ساتھ بھلا کرنے کیلئے دوڑ رہی ہوگی۔ انشاء اللہ

مجھے اور میری فیملی کو اندازہ نہیں تھا کہ ہمارے اپنے کتنے زیادہ ہیں ۔ میں اکثر آپ سب کی محبتیں خلوص دیکھ کر، سوچ کر، رو پڑتا ہوں۔ آئی سی یو میں میل نرس بابر کہنےلگا انکل آپ چپ چاپ لیٹے لیٹے سینٹی کیوں ہو جاتے ہیں، روتے کیوں ہیں کوئی درد ہے یا تکلیف ہے، نہیں پتر یہ شکر کے آنسو ہیں کہ نہ کوئی درد ہے اور نہ کوئی تکلیف ہے، شکر الحمدللہ

ہم سب آپ سب کیلئے دعاگو ہیں اللہ تعالی آپ سب کیلئے سب جہان آسان کردیں ۔ آمین

جزاک الله خیر

Prev ماں باپ
Next اہم ہونے کا وہم

Comments are closed.