میں تھکتا ضرور ھوں پر ھارتا نہیں

میں تھکتا ضرور ھوں پر ھارتا نہیں
تحریر محمد اظہر حفیظ
الحمدللہ میں اللہ کے ان بندوں میں سے ھوں جن پر اس کا خاص کرم ھے۔ اور میں اپنے رب کا شکر گزار ھوں جو اتنے کرم اس نے مجھ پر کئے۔ شکر الحمدللہ
48 سال پہلے 258 ر۔ب پھرالہ تحصیل و ضلع لائلپور میں پیدا ھوا ۔ کچی اور پکی جماعت امی جی کے سکول سے کی میری والدہ گاوں کےگورنمنٹ سکول کی ھیڈمیسٹرس تھیں اور پہلی جماعت میں مجھے گاوں میں لڑکوں کے پرائمری سکول میں داخل کرادیا گیا۔ استاد بہت اچھے تھے پر سکول کی عمارت بہتر حالت میں نہ تھی تو سب کلاسیں باھر ھی ھوتی تھیں ، نہ ٹاٹ تھے اور نہ سکول کی عمارت ھم کیکر کے درخت کی چھاوں میں بیٹھ کر پڑھتے تھے جسکی چھاوں بھی مکمل چھاوں نہیں ھوتی اور نہ ھی اس کی پھلیاں اسکی چھاوں کی طرح مکمل میٹھی ھوتی ھیں۔ایک آدھ کھاو تو اچھی لگتیں ھیں زیادہ سے پیٹ خراب ھوجاتا تھا۔ 
سکول کے ایک طرف پانی کا چھپڑ ھوتا تھا اور دوسری طرف برگد کا درخت اور اسکی گھنی چھاوں۔ میں کیوں کہ کیکر کی چھاوں کا عادی تھا تو مجھے گھنی چھاوں سے ڈر لگتا تھا اور میں اس کے سائے سے بھی ذرا فاصلے سے گزرتا تھا۔ راستے میں کئی جگہ اک کے بوٹے ھوتے تھے اس کا پھول مجھے بہت اچھا لگتا تھا، راستہ سیدھا تھا سکول کا۔مین سڑک پر ھی سکول واقع تھا پر میں نے تو شاید آرٹسٹ بننا تھا میں سکول بھی ایسے ھی آتا تھا جیسے عید کی نماز پڑھنے جاتے ھیں راستے بدل بدل کر۔ میں جاتا کسی راستے سے تھا اور آتا کسی اور راستے سے تھا جیسا کہ یہ مجھ پر فرض ھو۔ بہت چلتا تھا پر کھیت کھیلان مجھے اچھے لگتے تھے اور میں ان میں گھومتا پھرتا گھر پہنچتا تھا بھلا میری کونسی ماں جی گھر بیٹھی انتظار کر رھی ھوتی تھی۔ امی جی ھمیشہ ھم سے بعد میں سکول سے آتیں تھیں لیکن کمال کی منتظمہ تھیں ھر چیز وقت مقررہ پر کرنا ان سے ھی سیکھا۔ اور مسلسل سفر میں رھنا اباجی سے سیکھا۔ میرے والدین دونوں ھی بہت محنتی تھے۔ اور دینے والے مدد کرنے والے ھاتھ تھے اللہ انکو جزائے خیر دیں امین۔ امی جی رات کو ھی نہلا کر سلاتی تھیں کہ صبح وقت پر سب سکول جاسکیں۔ روزانہ کپڑے دھلے ھوئے پہنا کر بھیجتی تھیں، ھمیشہ سر میں گنگی ھوئی ھوتی تھی۔ سکول میں سب ھمارا احترام کرتے تھے مجھے نہیں یاد کہ کبھی ھمارا یونیفارم گندا ھو یا استری نہ ھوا ھو۔ مجھے نیند بہت اچھی لگتی تھی اور امی جی مجھے بار بار جگاتیں اور میں پھر سو جاتا، امی جی تنگ آکر کئی دفع رو پڑتی محمد اظہر حفیظ تمھاری نیند کی وجہ سے مجھے نوکری چھوڑنی پڑ جائے گی میرے بیٹے تجھے سمجھ کیوں نہیں آتی۔ یوں زندگی گزرتی رھی ۔ میں گاوں سے پانچویں جماعت پاس کرکے راولپنڈی آگیا اور امی جی کو ریٹائرمنٹ لینا پڑ گئی۔ نیند میری ویسے ھی جاری تھی کبھی ٹیوشن پڑھتے سوجانا اور شکایت لگ جاتی امی جی کہتیں بیٹا دھیان کرو وقت گزر گیا لیکن نیند میرے سے ناراض ھوگئی اب زیادہ وقت جاگتا ھی رھتا ھوں امی،ابو اور نیند تینوں میری زندگی سے چلے گئے۔ 
اور میں جاگتا ھی رہ گیا۔ شاید میری یہی قسمت ھے۔ 
سفر کرنا اور جاگنا۔
آج رات کے اس پہر لیٹا سوچ رھا ھوں لکھ رھا ھوں کئی باتیں سمجھ آئیں کہ میں کیسے پیدائشی فوٹوگرافر تھا۔ میں راستے بدل بدل کر رب کی بنائی خوبصورتی کو دیکھتا تھا پر مجھے کسی کو بتانا یا دیکھانا نہیں آتا تھا کہ کیا دیکھا ۔ مجھے فصلوں پر پڑی شبنم بہت اچھی لگتی تھی فصل پر ھاتھ پھیرو تو ھاتھ گیلے ھوجا تے تھی ۔ کئی میرے سکول کے ساتھی اسی طرح تختی کو گیلا کرکے گاچی لگا لیتے تھے
یوں ھی زندگی گزر رھی تھی خواھشیں نہیں تھیں سکون تھا آرام تھا 
پھر سکول کی زندگی ختم ھوئی میں نے راولپنڈی آرٹس کونسل جائن کرلی میٹرک کا رزلٹ آیا اور ھم پہنچ گئے کامرس کالج اسلام آباد اب میں ایک مختلف انسان تھا باسکٹ بال کھیلنا،پینٹ کرنا،دھیان سے پڑھنا،لان ٹینس کھیلنا،سکاوٹنگ کرنا، فوٹوگرافی کرنا، تقریری مقابلوں میں حصہ لینا، یہ سب کرتے کرتے میں نیشنل کالج آف آرٹس پہنچ گیا ۔ میں نے زندگی میں کبھی کچھ پلان نہیں کیا سب خود ھی ھوتا چلا گیا شکر الحمدللہ۔
نیشنل کالج آف آرٹس لاھور ایک شاندار تعلیمی ادارہ، زندگی سدھر گئی۔ بہت مشکل تھکا دینے والی پڑھائی۔ پر میں تھکا نہیں وقت پر پاس ھوگیا۔ محنت جاری تھی وہ سب جو میں نہیں کر سکتا تھا کیا، فیری میڈوز، دیوار چین، سیاچین،تھرپارکر،مسائی مارا،خنجراب پاس،فورٹ منرو،افغانستان باڈر،چین باڈر سب جگہ میں گیا الحمدللہ۔
تھک بہت گیا پر اللہ نے ھمت دی اور کامیاب ھوا ۔ 
الحمدللہ دوست احباب ،عزیز رشتہ دار ،فیملی سب بہت اچھے ھیں ۔ میری زندگی ایک کامیاب زندگی ھے شکر الحمدللہ۔
سب کچھ اچھا اچھا ھے۔ 
اللہ باری تعالی نے سب بہترین نعمتوں سے نوازا ، جتنا شکر کرو کم ھے جو میں نے سیکھا زندگی سے وہ کچھ یوں تھا جب تھک جاو اور ٹارگٹ حاصل نہ ھو تو ایک پرسنٹ اور محنت کرو انشاءاللہ کامیاب ھو جاو گے۔ کامیابی اور ناکامی میں بس ایک پرسنٹ کا فرق ھے اور کچھ بھی تو نہیں۔ 
میں پیچھے مڑ کر جب زندگی کے 48 سال دیکھتا ھوں تو بس ایک خواب محسوس ھوتا ھے حقیقت نہیں۔ کہاں 258 ر۔ب پھرالہ اور کہاں اسلام آباد ۔ کہاں گاوں کی فصلوں میں گھومتا پھرتا بچہ اور کہاں مسائی مارا کے جنگلات، کہاں حیرانی سے کلچ ،بریک،ریس یاد کرتا بچہ اور پھر بھول جاتا کلچ کونسا تھا اور کہاں خنجراب پاس پر کھڑا تصویریں بناتا فوٹوگرافر محمد اظہر حفیظ۔ 
کہاں پاکستان ٹیلی ویژن کے گیٹ پر انتظار کرتا آرٹسٹ اور کہاں اسی کے ھیڈ آفس میں بیٹھا ڈپٹی کنٹرولر گرافکس۔
الہی تیرا شکر کروں کیسے ادا۔ بس تیری عنایت ھے اور کچھ بھی تو نہیں۔ 
ایک فوٹوگرافی کا طالبعلم اور اس کے آگے ھزاروں طالبعلم شکر الحمدللہ۔ 29 سال پہلے نیشنل کالج آف آرٹس لاھور پہلے تعلیمی سال میں بیٹھا ایک طالب علم سوچتا ھے جو سامنے کھڑا استاد فوٹوگرافی پڑھا رھا ھے کیا یہ سب ایسے ھی ھے۔ اور آج وہ بچہ نیشنل کالج آف آرٹس راولپنڈی میں فرسٹ ائیر کو فوٹوگرافی پر لیکچر دے رھا ھے اور بتا رھا ھے یہ سفر کیسے گزرا تھکا بہت دفعہ پر ھارا نہیں۔ طالبعلم تو سامنے ویسے ھی ھیں جیسے 1990 میں تھے لیکن ایک چیز بہت مختلف ھے ۔
آج اس فوٹوگرافی کے طالبعلم کی بیٹی سامنے بطور طالبہ بیٹھی ھے۔ اور وہ اسکو بتا رھا ھے میری بیٹی تھکنا نہیں ھارنا نہیں انشاءاللہ تم کامیاب ھوجاو گی۔ تم اسلام آباد سے نیشنل کالج آف آرٹس گئی ھو اور میں گاوں سے آیا تھا منزل وھی ھے سفر مختلف ھے عید کی نماز کی طرح آنا کسی اور طرف سے ھے اور جانا کسی اور طرف سے ھے۔

Prev میری تصویریں
Next نمائش 

Comments are closed.