میں نہیں لکھنا چاھتا

تحریر فوٹوگرافر محمد اظہر حفیظ

دسمبر 2010 ایک ٹی وی پر ایک خبر چل رھی تھی گوجرانوالہ میں تین سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کرکے قتل کر دیا گیا میری ماں جی خبر دیکھ کر روتے ھوئے بیہوش ھوگیئں ھم ان کو فورا شفاء انٹر نیشنل ھسپتال ایمرجنسی لے گئے ھسپتال والوں نے ھمیں وھاں سے چلے جانے کو کہا اور ماں جی کو ھنگامی طبعی امداد دینا شروع کر دی پانچ دن انتہائی نگہداشت میں رھنے کے بعد ماں جی ھوش میں آئیں جب بات چیت شروع کی تو روتے ھوئے کہنے لگیں میرے ذھن میں اپنی پوتیاں آگئی خیال آیا اللہ کیا ھم نے اس دن کے لیے اتنی مشکلیں کاٹی تھیں جو پاکستان بنایا ھجرت کی لیکن حالات تو وھاں سے بھی ابتر بس سوچتے سوچتے میرا دل بیٹھ گیا اور پھر کچھ ھوش نہیں .
اس دن میں نے سوچا میں ان موضوعات کی تشہیر کرنے کی بجائے عوام کو اس کے بارے میں آگہی دینے پر کام کروں گا.
آگہی کے سلسلے میں ایک سمینار سے بات کرتے ھوئے میں نے درخواست کی ایسے منفی کاموں کی تشہیر کرنے کی ممانعت کی جائے اور مثبت کاموں کو اجاگر کیا جائے .
جیسا کہہ پہلے لوگوں کو پتہ نہیں تھا چولہا بھی پھٹ سکتا ھے جب پہلا واقعہ میڈیا کی نظر ھوا تو چولہا پھٹنے کے واقعات معمول کا حصہ بن گئے اور بہت سے لوگوں نے اس کو آلہ قتل بنالیا.
پھر تیزاب پھینکے کا پہلا واقعہ رپورٹ ھوا مختلف اداروں نے اس کو روزگار کا ذریعہ بنا لیا اس پر فلمیں بنی,میگزین اخبارات شائع ھوئے اور ھر اس حواص باختہ شخص نے جس کو شادی سے انکار ھوا محبت میں ناکامی ھوئی اس نے اس کو ھتھیار بنالیا اور لڑکیوں پر تیزاب پھینکنے کے ھزاروں واقعات رپورٹ ھونا شروع گئے.
اسی طرح بچوں پر جنسی تشدد کے حوالے سے سوشل میڈیا ,پرنٹ میڈیا اور الیکڑک میڈیا سراپا احتجاج ھوا اور ذہنی مریض کے ذھن میں یہ مشغلہ فروغ پانے لگا, اور وہ اپنی تسکین کی خاطر بچوں اور بچیوں پر جسمانی اور جنسی تشدد کرنے لگے
عورتوں کو جنسی طور پر ھراساں کرنے, اس کی تحقیقات اور سزا دینے پر ایک تربیتی ورکشاپ کا اہتمام ھوا اس میں سارے شرکاء کو بتایا گیا کون کون سے ھراساں کرنے کے طریقے ھیں اور الفاظ ھیں جن میں سے نوے فیصد شرکاء کے علم میں پہلے نہیں تھے مجھے ڈر لگنے لگا اور ذھن میں سوال اٹھا کہ یہ جنسی طور پر حراساں کرنے کے طریقے سکھانے کی ورکشاپ ھے یا پھر اس سے روکنے کے اقدامات کی ,
میرے تمام قسم کے میڈیا ماھرین سے درخواست ھے جو بھی پوسٹ لگایں خبر فائل کریں براہ کرم اس کے اثرات کا اندازہ بھی لگائیں کہ اس کے منفی اور مثبت پہلو کیا ھوں گے.
مجھے یاد ھے روزن نام کی ایک این جی او نے اسلام آباد کے گرلز سکولوں میں جنسی ھراسمنٹ آگہی مہم کے سلسلے میں چھٹی جماعت کی بچیوں کو فارم فل کرنے کو دیئے اور بچیاں رو رھی تھیں کہہ ایسا کبھی نہ ھمارے دادا نے کیا اور نہ چچا نے یہ کیسے گندے سوال ھیں اور کون چچا یا دادا اپنی بھتیجی یا پوتی کو غلط انداز سے دیکھ سکتا ھے یا چھو سکتا ھے, مجھ سے میرے بھائی نے ذکر کیا اور اس سلسلے کو فوری طور پر رکوانے میں میرے کچھ میڈیا دوستوں نے مدد کی مجھے یاد ھے این سی اے میں تعلیم کے دنوں میں ایک محترم دوست پریشان تھا پوچھا یار کیا ھوا رونے لگا کہنے لگا یار یہ ٹیلی ویژن اور اخبار ھمیں بے شرم اور بے غیرت بنارھے ھیں پہلے جب کسی غلط سین یا خبر پر بہنیں پاس سے اٹھ جاتیں تھیں اب بھائیوں کو اٹھ کر باھر جانا پڑھتا ھے یہ سب کیا ھے
میں چار بیٹیوں کا باپ ھوں الحمداللہ بہت خوش ھوں,بیٹیاں بہت خوبصورت اولاد ھیں,اللہ انکے نصیب اچھے کریں امین, لیکن اس فکر میں کہ زمانہ ان سے کیا سلوک کرے گا ان کے گھر سے باھر کے سب کام خود انجام دینے کی کوشش کرتا ھوں بازار جانا ھو یا کچھ لانا ھو سب خود کرتا ھوں اس پر میری ایک خاتون ساتھی گویا ھوئیں آپ ان کی شخصیت مسخ کر رھے ھیں ان کو ٹیکسی وین میں سفر کرنا سکھائیں, اکیلے خریداری کرنا سکھائیں لیکن ان کو کیا بتاوں ڈرپوک والدین ھوتے ھیں بچے نہیں بچے تو بہادر ھوتے ھیں نڈر ھوتے لیکن وہ زینب بن جاتے ھیں مر جاتے ھیں اور والدین روز مرتے ھیں سہم جاتے ھیں رو بھی نہیں سکتے بچے پوچھتے ھیں زینب کو کیا ھوا انکل نے اس کو کیوں مار دیا یہ سب لوگ میڈیا پر اس کا تمسخر کیوں آڑا رھے ھیں اسے ھوا کیا تھا ھمیں بھی کچھ بتائیں
آب آپ سب مجھے بتاو جو اس خبر کا میلہ لگا رھے ھو. میں اپنی بیٹیوں کو کیا جواب دوں زینب کو کیا ھوا ھے,یہ جنسی درندے کون ھوتے ھیں,کیا کرتے ھیں کیوں جان سے مار دیتے ھیں اپ کا قصور کیا ھے چلو دل بہلانے کو خیال آتا ھے زینب کا قصور تو سمجھ آتا ھے وہ قصوری تھی پر میری بیٹیوں کا کیا قصور ھے میرا قصور کیا ھے مجھے ڈر کس بات کا ھے
بیٹیوں کا باپ ھونا گناہ ھے کیا.
مجھے یاد ھے مکہ میں گھومتے ھوئے ایک چار دیواری کے پاس رکا اپنے پھوپھی زاد بھائی میاں منظور جو سعودیہ ھوتے ھیں پوچھا یہ جگہ کیوں خالی ھے ھر طرف تعمیرات ھوگئی ھیں بلند و بالا لیکن جہاں زمانہ جہالت میں لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے وہ جگہ خالی ھے ابھی تک انکا خیال ھے اس جگہ عمارت بنانے پر ھم کسی مصیبت کا شکار نہ ھوجائیں,
کبھی کبھی خیال آتا ھے وہ زمانہ جہالت تھا یا پھر وہ اس طرح کی درندگی سے بچنے کیلئے یہ اقدامات کرتے تھے اگر ایسے ھی حالات اور حکمران رھے تو شاید ھمیں بھی ایسے کچھ میدان بنانے پڑیں جہاں بیٹیوں کو زندہ درگور کیا جاسکے یا پھر ایسے ناھنجار بیٹوں کے لیے ھمیں جگہ جگہ پھانسی گھاٹ بنانے پڑھیں جو ایسی درندگانہ مکروہ عمل کرتے ھیں فیصلہ آپ کا ھے بنانا کیا ھے پھانسی گھاٹ یا زندہ در گور کرنے کے میدان

Prev ماں باپ
Next بڑا آدمی

Comments are closed.