نفرت کے کاشتکار 

نفرت کے کاشتکار
تحریر محمد اظہر حفیظ
ماہ رمضان میں سنا ھے شیطان بند ھوتا لیکن جتنی نفرت اس مہینے میں بوئی جاتی ھے شائد ھی کوئی مہینہ ھو،
ھر کوئی مذھبی پوسٹ لگانا بات کرنا اپنا فرض سمجھتا ھے،
ایک دوست نے فوٹوگرافی کے متعلق ایک واٹس ایپ گروپ میں ایک پوسٹ لگائی، پوسٹ تھی” وھابیوں نے صومالیہ میں سموسہ کو حرام قرار دے دیا”، میں اس پر کمنٹ کیا بھائی یہ فوٹوگرافی کا گروپ ھے اس کے مطابق پوسٹ لگائیں ساتھ ھی فتویٰ آگیا اچھا آپ بھی خارجی ھو، خارجی اور خارجی کی مدد کرنے والا واجبل قتل ھے، عرض کیا بھائی قتل بھی کر لیں لیکن میں نے تو بطور فوٹوگرافر درخواست کی تھی، ویسے یہ خارجی کیا ھوتے ھیں اور کیوں ھوتے ھیں اور میرا ان سے کیا تعلق ، جواب تھا دیکھیں جناب خارجیوں کے متعلق پوسٹ کہیں بھی کبھی بھی لگائی جا سکتی ھے، اور یہ سب واجبل قتل ھیں، اور انکی مدد کرنے والے بھی، یہ اس دنیا کا فتنہ ھیں ساری رات جاگتا رھا یہ کیا ھو رھا ھے رمضان میں اور، میں تو مسلمان ھوں مجھے کیا پتہ یہ خارجی کیا ھوتے ھیں صبح باقی گروپ سے معافی مانگی اور برداشت کیا، ھمارے جھنگ سے دوست تھے انکی مسلسل پوسٹ آ رھے تھے السعود کو ھٹایا جائے، میں نے سوال پوچھا بھائی متبادل قیادت کا،نام بتا دیں خود تو خاموش رھے اور انکے ساتھی نے نیچے لکھا جناب اب خدمت کا موقع ایران کو دیں بہت عرصہ انھوں نے عیاشی کر لی میرا سوال تھا کیا، مکہ اور مدینہ عیاشی کی جگہ ھے یا عبادت کی تو انھوں نے مجھے بلاک کرنے میں ھی سہولت سمجھی ساتھ لکھ دیا ھم ھمیشہ آپکی تحریروں کی تعریف کرتے ھیں اور آپ نے کیا، کیا اب پتہ چل گیا کہہ آپ کون ھیں، مجھے اپنے بارے میں اتنا نہیں پتہ تھا جتنا انکو پتہ چل گیا، مجھے سمجھ نہیں آتی ان سوالات اور مسائل کی ضرورت ھی کیا ھے، پچھلے دنوں عید گاہ والے پیر صاحب کی فیملی کا کسی جج صاحب سے کوئی ایشو، تھا ،کسی نے بھی جھگڑے کی وجہ نہیں بتائی، لیکن ایک لمبی لڑائی لڑی گئی کچھ حق میں تھے اور کچھ خلاف لیکن حق والے صاحب کی اگلے دن پیر صاحب سے ملاقات کی تصویر نے انکے دراجات بلند کر دیئے ،درخوست ھے کوئی بھی دینی یا مذھبی مسئلہ بغیر ریفرنس، اور تحقیق کے مت لگائیں، سنی سنائی باتوں کو اگے مت بھیجیں اور نہ ھی پوسٹ کریں، نفرت انگیزی اور شر پر مبنی مواد کی مدد کرنا اسکو اگے بڑھانا بند کر دیں، اللہ آپکو اجر عظیم عطا کریں امین، ھمارے گاؤں میں حافظ سید محمد بشیر صاحب رحمتہ اللہ علیہ جامعہ مسجد کے خطیب اور امام تھے گاوں میں تین مساجد تھیں لیکن جامع مسجد ایک ھی تھی حافظ صاحب کی کچھ زمین تھیں کھیتی باڑی کرتے اور دینی تعلیم دیتے تھے قرآن پڑھاتے دعائیں یاد کرواتے اور ایسا عالم زندگی میں نہیں دیکھا سب انکی امامت میں نماز ادا کرتے، اور انکی زندگی میں ھمیں نہیں پتہ تھا یہ فرقے کیا ھوتے ھیں، سخت مزاج تھے اگر کوئی سبق یاد نہ کرتا دیر سے آتا لیکن انکی حس مزاح بہت شاندار تھی دیر سے آنے والے کو میرے سوھنے نوں راستے وچ کتے تے نہیں پے گئے لگدا اے جگنو دی روشنی دے پیچھے پیچھے مسجد آئے ھو، ایک دن میرے پھوپھی زاد بھائی میاں عبد الرؤف مسجد پہنچے حافظ صاحب گویا ھوئے عبدالرؤف صاحب اذان دے دیں، عبدالرؤف بھائی حافظ جی مینوں شرم آندی اے اچھا ٹھیک ھے کسے بے شرم نو بلا لو اذان تے دینی ھی اے، حافظ صاحب کا بیٹا ایبٹ آباد پبلک سکول میں ٹیچر تھے اور بیٹی گاؤں کے سکول میں ٹیچر امی جی کی بہن بنی ھوئی تھیں. ھم سب انکو اپا جی حفیظ کہتے تھے بہت شفیق خاتون ھیں سکول کے ساتھ ساتھ گاؤں کی سب لڑکیاں انکے پاس قران پڑھنے اور دین سیکھنے جاتیں تھیں بہت خوشگوار ماحول تھا گاؤں کا، پھر ھم اسلام آباد آگئےاور پتہ چلا حافظ صاحب کا انتقال ہوگیا ھے اللہ انکے جنت میں دراجات بلند کریں امین اور نئے امام صاحب آگئے ھیں اور کچھ ھی دنوں میں وہ لشکر جھنگوی کے نمائندے ثابت ھو گئے اب گاؤں میں تین جامع مسجد بن گئی اہلسنت والجماعت، اہلحدیث والجماعت اور دیوبندی یا اللہ یہ کیا ماجرہ ھوگیا آئے روز فساد جھگڑے اور پولیس کا گاؤں آنا معمول بن گیا، دوسری طرف سحری اور افطاری کی ٹرانسمیشن بھی ایک اچھا خاصہ فتنہ ھیں، ایسے لوگ جنہوں نے دین کو نہیں پڑھا ھوا وہ سکرپٹ کی طرح دین کو، پڑھتے ھیں اور علماء سے الٹے سیدھے سوال کرنا انکا مذاق اڑانا اپنا فرض سمجھتے ھیں ھمیں اپنی اصلاح کرنی ھوگی اس طرف واپس جانا ھوگا جو اللہ اور اسکے رسول صلی الله عليه وسلم کا بتایا ھوا راستہ ھے، اس کے علاوہ باقی سب سے اجتناب کرنا ھوگا، ھمیں کچھ فیصلے اللہ پر چھوڑنے ھونگے کون کافر ھے اور کون مسلمان، مجھے اب سوشل میڈیا بھی عالمی گاؤں سے اپنا گاؤں بنتا محسوس ھو رھا ھے جس کے حافظ صاحب انتقال فرما چکے ھیں برداشت ختم ھوچکی ھے اور سب کی اپنی اپنی جامع مسجد ھے اللہ سب کو ھدایت دیں برداشت، صبر، بردباری، تحمل دیں سیدھے راستے پر چلائیں امین

Prev حاجی اعظم
Next شہر نبی

Comments are closed.