وائرس اور اینٹی وائرس

وائرس اور اینٹی وائرس

تحریر محمد اظہر حفیظ

1988 میں کمپیوٹر سے وابستگی شروع ہوئی ، شفقت نواز ملک بھائی اس کام کے پہلے استاد تھے۔

پروگرامنگ، ڈیزائنگ سافٹ وئیر اور کمپیوٹر ہارڈ وئیر سب شامل تھا ۔ اس دور میں وائرس کم ہی تھے پر پہلا سبق تھا کہ جو وائرس بناتا ہے وہ ساتھ ہی اسکا اینٹی وائرس بھی بناتا ہے کسی اور کیلئے اس کا اینٹی وائرس بنانا مشکل تو کیا ممکن ہی نہیں۔

کچھ سال پہلے ایک کمپیوٹر وائرس آیا جو سارے ڈیٹا کو کرپٹ کردیتا تھا اور ہر فائل پر میسج آتا تھا اس ای میل ہر رابطہ کریں 700 ڈالر سے 1000 ڈالر کا تقاضہ کیاجاتا اور اس کا کوڈ بھیج دیا جاتا جو اس کو ڈی کوڈ کرکے ڈیٹا بحال کردیتا۔ جس نے پیسے جمع نہیں کروائے اس کا ڈیٹا ضائع ہوگیا۔ شادی بیاہ سے وابستہ فوٹوگرافر اور ویڈیو گرافر بلکل تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے۔ کام الگ خراب ہوا اور ایڈوانسیز الگ واپس کرنے پڑے۔ کئی تو فیلڈ ہی چھوڑ گئے۔ کافی ٹیلی ویژن چینلز کا ڈیٹا بھی متاثر ہوا۔

کافی ریسرچ کی لیکن ڈیٹا ریکور کرنا ناممکن تھا پھر جو کوڈ بھیجا گیا تو ڈیٹا کھلنا شروع ہوگیا اور اس کوڈ کو عام کردیا گیا۔ اب اس وائرس کا علاج ممکن ہوا ہے۔ تقریبا 4 برس بعد۔

تو استاد شفقت نواز ملک کا بتایا ہوا فارمولا ذھن میں آیا کی وائرس بنانے والا ہی اینٹی وائرس بناتا ہے ۔

جب کرونا نے تباہی شروع کی تو یہی کہا گیا جس نے یہ وائرس بنایا ہے وہی اس کا اینٹی وائرس یا اینٹی ڈاٹ پیش کرکے اربوں روپے کمائے گا۔

یہی ہوا اور کئی ملک تباہی کے دھانے پر پہنچ گئے اور کئی ملک ویکسین بیچتے رہے۔

کہتے ہیں کہ ابھی تک وائرس بنانے والے کا پتہ نہیں چلا سکا ۔ ماں صدقے ایسی ٹیکنالوجی کے۔

اسی طرح قیام پاکستان سے ہی بہت سے سیاسی وائرس مختلف ناموں سے تخلیق کئے جاتے رہے اور تخلیق کرنے والے ہی انکے اینٹی وائرس بھی ساتھ ساتھ بناتے رہے۔ اس عمل میں جتنے بڑے نام تخلیق ہوئے انکو مختلف اینٹی وائرس چلا کر ختم کیا گیا۔

جو ہم نے اپنی زندگی میں دیکھے جیسے ذوالفقار علی بھٹو صاحب، محمد خان جونیجو صاحب، نواز شریف صاحب، معین صاحب، شوکت عزیز صاحب، الطاف حسین صاحب، ولی خان صاحب، بے نظیر صاحبہ،ظفراللہ جمالی صاحب، زرداری صاحب، راجہ پرویز اشرف صاحب، یوسف رضا گیلانی صاحب، شاہد خاقان عباسی صاحب، عمران خان صاحب، شہباز شریف صاحب اور بہت سے دوسرے۔

یہ سب ہمارے سامنے جیسے آئے ویسے ہی چلے گئے۔

سب آئے پھر انکا اینٹی وائرس چلا کر انکو ختم کیاگیا۔

آجکل عمران خان صاحب کا اینٹی وائرس لانچ کیا جارہا ہے۔ اگلی باری والے اپنی باری کا انتظار کریں۔

باری سب کی آنی ہے میری بھی اور آپکی بھی۔

وائرس بنانے والے کو اس وائرس کی تباہی کا تھوڑا بہت اندازہ تو،ہوتا ہے پر یہ نہیں پتہ ہوتا کہ اس سے کئی ممالک کی معیشت اجڑ جائے گی اور اینٹی وائرس چلنے تک ملک دیوالیہ ہوجائیں گے بس اسنے تو اپنے وائرس،کے کمالات دیکھنے ہوتے ہیں۔ اور پیسے کمانے ہوتے ہیں۔ سنا تھا کہ آنے والے وقتوں میں جنگیں کیمیائی ہونگی نہ کہ اسلحے کے زور پر اور کرونا کی شکل میں دیکھ بھی لیا۔ پھر سنا تھا کہ سب کام ربورٹس کیا کریں گے ہم نے تو ربورٹ حکمران بھی دیکھ لیے۔

سنا تھا کہ ربورٹس کے اندر انّا نہیں ہوتی کچھ ربورٹس کے اندر انّا ڈال کر ٹیسٹ کی گئی اور انھوں نے ایجاد کرنے والے سائنسدانوں کے خلاف بولنا شروع کردیا۔

کہ انکے بنانے میں بنانے والوں نے کیا کیا غلطیاں کی اور کیا کیا فوائد حاصل کیئے۔

2016 سے لیکر 2020 تک فورٹ منرو کے گیارہ پلوں اور سڑک پر کام کیا ڈاکیومنٹری بنائی۔ ایک جاپانی کمپنی اس پراجیکٹ پر کام کررہی تھی۔ ایک دن بھی اس پر ٹریفک کی روانی متاثر نہیں دیکھی کام کرنے کا سلیقہ تھا۔

ہمارے ہاں کچھ لاجسٹک سپورٹ کے ادارے اب کنسٹریکشن میں بھی آگئے ہیں ۔ اور ہر دوسرا پراجیکٹ کرنے پر معمور ہیں اور ماشاء الله سے ٹریفک کی بے ترتیبی میں بھی انکی پی ایچ ڈی ہے۔ آئی جی پی روڈ ہو یا بھارکہو کا زیرتعمیر پل

ٹریفک چلنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ کل بھارکہو گزرنے پر تقریبا دو گھنٹے آسانی سے لگے۔ آتے جاتے اتنا وقت لگ گیا جتنا لاہور جانے میں لگتا ہے۔ ایک دو ٹریفک پولیس کے لوگ نظر آئے پر اس کمپنی کا کوئی ٹیم ممبر ٹریفک بحال کراتے نظر نہیں آیا۔ شاید انکو پتہ نہیں کہ سبز اور لال رنگ کی جھنڈیاں لئے لیبر ٹریفک کی بحالی کس کام کرتی ہے نہ کے ٹریفک پولیس۔ بھائی جب وائرس بنانے کا شوق ہے تو اینٹی وائرس بھی تو تیار رکھو ۔ شاید انکے استاد کمزور ہیں جو وائرس تو بنالیتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں کہ اینٹی وائرس کہاں رکھا تھا۔ احتیاط کیجئے ، ملک وائرس بنانے سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں ہیسے ضرور کمائیے پر ملک کی تباہی اسکے قیمت ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ شکریہ

Prev میاں حسن فاروق طفیل
Next یکم جنوری

Comments are closed.