وارث

وارث
تحریرمحمد اظہر حفیظ
میری چار بیٹیاں ھیں الحمد اللہ ۔ اور میں ایک فوٹوگرافر ھوں بہت سا فوٹوگرافی کا سامان ھے۔ اور میں بوڑھا ھوتا جا رھا ھوں۔ سوچا چو میرے بعد میری فیملی اونے پونے دام میرا سامان بیچ لے گی بیٹیاں اپنے گھروں کو چلی جائیں گی۔ اور فوٹوگرافی کا باب ختم مجھے یاد ھے میرے محترم دوست ڈاکٹر جاوید چاولہ صاحب کے ماشاءاللہ دو بیٹے ھیں ایک شاندار فوٹوگرافر ھے ڈاکٹر صاحب کی طرح اور دوسرا بہترین ڈاکٹر ھے ماشااللہ سے اسکی بیوی بھی ڈاکٹر ھے ایک بیٹے نے فوٹوگرافی کو وراثت میں لے لیا اور دوسرے نے ڈاکٹری اللہ سلامت رکھیں ساری فیملی کو۔
میرے کئی ھزار شاگرد ھیں میرے بیٹے اور بیٹیوں کی طرح بڑے دل اور ایمانداری سے فوٹوگرافی کا فن انکو منتقل کیا ۔ اور کئی شاندار فوٹوگرافر بھی نکلے تین چار نے بہت دل آزاری بھی کی لیکن در گزر کر دیا۔ بڑی بیٹی نے میٹرک کیا تو کہنے لگی بابا جی میں نے فائن آرٹ پڑھنی ھے پر اماں کہتی ھے انجینئرنگ پڑھو کیا کروں بیٹا دو سال ماں کے کہنے کے مطابق پڑھ لو اور پھر اپنے مرضی کا پڑھ لینا پکی بات بابا جی ۔ جی میری جان اور مئی میں دوسال مکمل ھوئے تو آخری پرچے والے دن میں ڈرائنگ بورڈ ڈرائنگ شیٹس پینسل ربر شاپنر کینوس پینٹس بہت سارے لے آیا بابا جی شکریہ ۔ نہیں میری جان میرا وعدہ تھا اور ھم روزانہ میرے چھوٹے بھائی اور بیٹی کے سر عقیل سولنگی صاحب کی اکیڈمی جانا شروع ھوگئے چار بجے گھر سے نکلتے پانچ بجے اکیڈمی اور پانچ بجکر بیس منٹ پر میں ایوب پارک واک کرتا اور تصویریں بناتا چھ چالیس پر واپس ھوتا اور سات بجے ھم اکیڈمی سے نکلتے گھومتے پھرتے واپس رات آٹھ بجے گھر صبح نو بجے سے گیارہ بجے ھم گھر پر ڈرائنگ کی کلاس لیتے اور یوں دن رات ھم تیاری کرنے لگے این سی اے ٹیسٹ کی پینٹنگ کیلئے ایک دوست کی طرف بھی جاتے ھفتے بعد ۔ اب میرے واک پارٹنرز میں میری بیوی اور چھوٹی بیٹی بھی شامل ھوگئی ھم دونوں واک کرتے اور وہ کہیں بھی بیٹھ کر ڈرائینگ کرتی رھتی۔ اور زندگی کا ایک نیا دور شروع ھوگیا بڑی بیٹی کو فوٹوگرافی اور گرافکس سکھانا شروع کر دیئے ایک دن ھم نے ایک گیسٹ ھاوس کا شوٹ بھی ساتھ کیا۔ اب صورتحال یہ ھے کہ اسکو کیمرے کی سب بنیادی چیزوں کا پتہ چل چکا ھے کون سا سامان کہاں پڑا ھے کیسے سنبھالنا ھےکیمرہ صاف کیسے کرنا ھے اور کون سا کیمرہ لینز کب چاھیئے سب پتہ ھے ماشااللہ بابا جی کس طرح کا شوٹ ھے کل کیوں بیٹے تاکہ اس کے مطابق سامان تیار کردوں۔ الحمدللہ مجھے میرے چار وارث مل گئے ھیں ایک بیگ پیک کرتی ھے دوسری سامان گاڑی میں رکھتی اور نکالتی ھے مجھے آج کسی دوست نے پوچھا جو بیٹی نیشنل کالج آف آرٹس راولپنڈی جارھی ھے اس کو بھی کوئی کیمرہ لیکر دیا ھے نم آنکھوں سے مسکرادیا جو میرے ھیں وہ میرے وارثوں کے ھی ھیں ماں بننے کے عمل میں میں نے دیکھا اور سنا ایک موقعہ پر ماں کے اندر دو دل دھڑکتے ھیں ایک اپنا اور ایک اولاد کا اور جو میں نے محسوس کیا میرے اندر بے شک ایک ھی دل ھے پر اسکی ڈھرکن میری اولاد ھے میرے فن کی وارث میری وارث میری بیٹیاں اللہ انکے اچھے نصیب کریں امین انکو اچھا انسان اور فنکار بنائیں امین
بابا جی مجھے فائن آرٹ نہیں بلکہ گرافک ڈیزائن اور فوٹوگرافی کو پڑھنا ھے ۔ بابا جی اب جب آپ نمائش کریں گے میں ساتھ کام کرواوں گی جی اچھا۔ باباجی آپ رویا نہ کریں مجھے بھی رونا آجاتا ھے جی اچھا بیٹے ۔ لیں پھر رو رھے ھیں پتر یہ خوشی کے آنسو ھیں تمھیں کیسے سمجھاوں۔
مجھے یاد ھے جب میں نیشنل کالج آف آرٹس میں تھا تو سب کیلئے کارڈز بناتا تھا وہ ایک مختلف کارڈ ایسے ھوتے تھے عید کارڈ اور ھر ایک دوست کی اس پر تصویر ھوتی تھی ۔ میری بیٹی بھی اب ھر موقعہ پر کارڈز ڈیزائن کرتی ھے بابا کی سالگرہ کا کارڈ ماموں ممانی کی حج سے واپسی پر حج مبارک کا کارڈ عمران بھائی کی بیٹی کیلئے کارڈ ۔ کارڈ اسکے بھی تصویروں والے ھی ھیں پر جو کارڈ میں بناتا تھا ان سے بہت مختلف اور خوبصورت۔ زیادہ تر کارڈز کے اندر تھری ڈی ماڈلنگ بھی مزے دار لگتی ھے۔ الحمدللہ میں خوش ھوں شکر گزار ہوں اپنے رب کا جس نے ایسے شاندار وارث دیئے ۔ 
شکرالحمدللہ

Prev تکلیف
Next یتیم مسکین

Comments are closed.