وارداتیے

وارداتیے
تحریر محمد اظہر حفیظ
1985 میں ھتھوڑا گروپ نے بہت سنسنی پھیلائی اور اس کی آڑ میں بہت سے لوگوں نے اپنی پرانی دشمنیاں مکائیں اور ہتھوڑے کی مدد لی، اسی طرح جب ٹارگٹ کلنک کراچی میں شروع ھوئی تو بہت سارے لوگوں نے پرانے حساب چکتا کئے اور نام ٹارگٹ کلنگ کا لگا دیا، دراصل ھم سب واراتیے ھیں ھر واردات میں سے فائدہ ڈھونڈنے لگتے ھیں،
ایک دن ایک دوست کہنے لگے، جی آج ایک نیا واقعہ سنا گاؤں کے کچے راستے پر ایک شخص مرغہ بنا، ھوا تھا ایک موٹر سائیکل پر دو سوار وھاں سے گزر رھے تھے رکے چاچا کی گل اے کن چھڈ دے او جی ڈاکو میرا موٹر سائیکل لے گئے ھیں مجھے مارا اور مرغہ بنا دیا اگر کان چھوڑو گے تو گولی مار دیں گے میں کان نہیں چھوڑ سکتا، چاچا چھڈ دے دور دور تک کو بندہ نہ بندے دی ذات نہیں او مینوں مار دین گے چاچا ساڈا یقین کر اچھا فر پکی گل اے کوئی نہیں دور دور تک چاچا اسیں تینوں جھوٹے نظر آندے آں مہربانی جناب اور ساتھ ھی چاچا کان چھوڑ کر کھڑا ہوگیا شلوار کے نیچے سے پستول نکالی اور چیخا کن پھڑ لو ورنہ گولی ماریاں گا ساتھ ھی ھم مرغے بن گئے اور ڈاکو ھمارا موٹر سائیکل لے کر یہ جا وہ جا عید کے موقعہ پر اعلیٰ طریقہ کی واردات تھی اب یہ واردات اپنے دوست حاجی اعظم کو سنائی تو مسکراتے ھوئے گویا ھوئے باوا جی یہ تو کچھ بھی اے سنو میں گوجرانوالہ ایک دوست کو ملنے پولیس سٹیشن گیا ابھی چائے پی رھے تھے ایک پٹھان روتا پیٹتا اندر داخل ھوا اوئے میں لٹ گیا خان بیٹھو اسکو پانی پلاو اب بتاو کیا ھوگیا اب اپنی نوعیت کی نئی واردات سامنے تھی،
میں جی اپنا رکشہ لے کر ریلوے پھاٹک پر کھڑا تھا رکشے میں آکر ایک سفید کپڑوں والا بندہ بیٹھ گیا جی کدھر جائے گا ھم جانے نہیں لے جانے آیا ھے میں موت کا فرشتہ ھوں اوئے تم خان کو بیوقوف بناو گے حرام خور اترو دفعہ ھو جاو اور وہ جی کوئی ڈھیٹ آدمی تھا نہیں اترا بضد، ھم موت کا فرشتہ ھے ابھی میں اترا کر، اس کی دھلائی شروع کرنے والا ھی تھا دو باجیاں آگئی خان سیٹلائٹ ٹاؤن چلو جی باجی وہ بندہ رکشے میں ھی تھا اور دونوں بھی ساتھ بیٹھ گئیں باجی ایک منٹ اس حرام خور کو تو اتار لوں خان بھائی رکشے میں ھم دونوں ھیں اور کون ھے جو درمیان میں بیٹھا ھے درمیان میں تو کوئی نہیں بس سر ھم ڈر گیا اور اتر کر دوڑ لگا دی تھوڑا دیر بعد ھمارا رکشہ ھمارے پاس سے گزرا ھے اور موت کا فرشتہ اس کو چلا رھا تھا باجیاں پیچھے بیٹھیں تھیں بس صاحب ھم تو مر ھی گیا فراڈ ھوگیا ھمارے ساتھ ھماری ھنسی نکل گئی اور خان کی جان
ھمارے کچھ لوگ منفی سوچ اور پلاننگ کے ماھر ھیں جھنگ میں جب آئل ٹینکر کو آگ لگی غالباََ جون 1999 تھا سو سے زیادہ تیل چوری کرتے ھوئے جھلسنے سے ھلاکتیں ھوئیں میں روزنامہ کائنات اسلام آباد سے وابسطہ تھا ھماری ٹیم خالد ڈرائیور محسن رضا صاحب ایڈیٹر اعجاز صاحب اور شہریار صاحب بطور رپورٹر ساتھ اور میں بطور فوٹوگرافر ٹیم کا حصہ تھا اور سب سے پہلے پہنچنے والی میڈیا ٹیم ھماری تھی، بہت تلخ تجربہ تھا ھر گھر میں ماتم قاضی حسین احمد آگئے 80 افراد کی نمازِ جنازہ انہوں نے پڑھائی کچھ عرصے میں بات آئی گئی ھوگئی اور پھر 2017 جون دوبارہ ویسا ھی حادثہ لالچ، بڑھ گہا تھا اب مرنے والے دوسو کے قریب تھے اور چور تقریباً تین سو اگ لگی وھی بات ھوئی لوگ جل گٰے مر گئے زخمی ہوگئے سوشل میڈیا نے اتنا شور مچایا کہہ پنجاب گورنمنٹ نے چوروں کی حوصلہ افزائی کے لیے مرنے والے کو بیس لاکھ اور زخمی کو دس لاکھ انعام کا اعلان کیا، اب ھوگا، یہ جب بھی کوئی ٹینکر الٹے گا مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی کیونکہ ھم اس ملک میں رھتے ھیں جہاں لوگ اپنے بچے برائے فروخت کا پوسٹر لے کر پریس کلب کے باھر ھی کیوں کھڑے ھوتے ھیں گردہ برائے فروخت کا بینر پریس کلب کے باھر، ھی کیوں لگاتے ھیں کیونکہ انکو پتہ ھے انکو خبر مل جائے گی اور بیوقوف گورنمنٹ پیسے لے کر آجائے گی ھمارے کچھ عقلمند دوست لاشوں کی قیمت سے لسانیت کو ھوا دے رھے ھیں پارا چنار والی لاش کی قیمت کشمیر والی لاش کی قیمت بہاولپور والی لاش کی قیمت دوستو چور اور شہید میں فرق ہوتا ھے دونوں کو الگ الگ ھی رکھیں تو، مہربانی ھوگی، اگر اگلا آئل ٹینکر کی چوری میں زیادہ لوگ جلستے ھیں تو، مہربانی فرما کر جس نے گورنمنٹ کو بیس لاکھ دینے کا مشورہ دیا، تھا اس کو بھی تیل ڈال کر آگ لگا دیجئے گا شکریہ

Prev میڈم لالہ رخ 
Next میرے

Comments are closed.