واپسی کا سفر

واپسی کا سفر

تحریر محمد اظہر حفیظ

پہلا قدم ھمیشہ ھی خوشی کا باعث ھوتا ھے، آپ کے والدین، بہن بھائی اور آپ سے وابستہ سب رشتے خوشی سے سرشار ھوجاتے ھیں کہ آپ نے چلنا شروع کردیا ھے، پھر یہ قدم مختلف سمتوں میں رواں دواں رھتے ھیں، انگریزی اور اردو والا سفر تو سب ھی کرتے ھیں، پر شاید میں ان خوش نصیبوں میں سے ایک ھوں جس نے بس سوچا اور رب نے وسیلہ بنا دیا، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ میرے رب نے میرے والدین اور بیوی بچوں ساتھ دکھا دیا، شاید ھی اس سے بہتر کوئی سفر ھو، اس طرف جانا اور نصیبوں کا بلندیوں پر آجانا، اسی سفر سے وابستہ ھے، بہت عجیب سفر ھے آپ روتے ھوئے خوشی خوشی جاتے ھیں اور روتے ھوئے اداس واپس آتے ھیں، دل کو تسلی دیتے ھیں اور خانہ کعبہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر دعا کرتے ھیں التجا کرتے ھیں کہ پھر بلائیے گا اور یہ عقیدت کا سفر ساری زندگی جاری رھتا ھے اور امید اور آس بھی لگی رھتی ھے جانے کب بلاوا آجائے، رب سے درخواست تھی کہ پہلا سفر اپنے گھر کا ھی کروانا اور اس نے میرے جیسے گنہگار کی لاج رکھی، سفر تو اور بہت کئے سنگ یانگ چائنہ بہت لمبا سفر تھا شروع بہت شوق سے ھوا دیوار چین کا ایک حصہ پار کرنا ھی بہت دشوار تھا یہ پہلا سفر تھا جس کی منزل ھی واپسی تھی مطلب یہ جہاں سے شروع ھوا وھیں پر سفر کے آخر میں پہنچ گئے، بہت تھکا دینے والا سفر تھا، جس کی منزل پر پہنچتے پہنچتے بے تحاشا تھک گئے، اسی طرح کا دوسرا سفر فیری میڈوز کا تھا منزل تک پہنچتے ٹانگوں کو چین یاد آگیا، دیوار چین سیڑھیوں کا راستہ تھا اور فیری میڈوز آسمان تک پہنچنے کا زمینی راستہ تھا، سفر کرنا تو آسان ھوتا ھے ، مگرجب آپ منزل پر پہنچتے ھیں تو واپسی کا سوچ کر ھی تھک جاتے ھیں، کہ جہاں سے آئے ھیں وھیں واپس بھی جانا ھے، اسی طرح کا تیس گھنٹے کا سفر مسائی مارا کینیا کا ھے ، جانے کا شوق اپنی جگہ اور آنے کی سوچ تھکا دینے والی، نیلم ویلی بہت دفعہ گئے پر اڑنگ کیل بھی ایک مناسب مشکل سفر ھے جاتے ھوئے چڑھائی خوفناک اور آتے ھوئے اترائی بے شمار، ساری زندگی سفر میں گزری ھمیشہ نئی منزلوں کا متلاشی رھتا ھوں، منزلوں کی تلاش سیاچین، شمالی اور جنوبی وزیرستان، تھرپارکر، چولستان، زرغون، گوادر، کالام، مینگورہ، خنجراب، ھنزہ، گلگت، سکردو، شنگریلا، سیف الملوک، حنا جھیل، مانسہرہ، کاغان، ناران، کیوائی، شوگران، ٹانک، بنوں، کوہاٹ مہمند ایجنسی، لائلپور، لاھور، راولپنڈی، اسلام آباد، کراچی، ٹھٹہ، حیدرآباد، رحیم یار خان، ڈھیرکی، سجل، سجاول، پتہ نہیں کہاں کہاں کا سفر کیا اور رب کی کائنات کو دیکھا، کیا کیا نہیں دیکھا، سب کچھ ھی تو دیکھ لیا جو اکاون سالوں میں دیکھا جاسکتا تھا، ھمیشہ ھی میرے رب نے مجھے اچھے ھمسفر عطا کئے، ھر سفر میں شریک سفر سے لیکر شریک حیات تک سب اچھے سے اچھے ملے شکر الحمدللہ، کوئی گلہ شکوہ نہیں ھے، زندگی کے اکاون برس گزر گئے سفر کرتے ھوئے جس منزل کی طرف بڑھے میرے اللہ نے خیر خیریت سے پہنچا دیا، شکرالحمدللہ،

آج دس اگست ھے، میں آج کے دن پیدا ھوا اور ذندگی نے سفر شروع کردیا، سفر دونوں ھی تھے انگریزی والا بھی اور اردو والا بھی، چلو کوئی بات نہیں، اب واپسی کا سفر شروع ھوگیا ھے، اسی طرح تھکا ھوا ھوں، ھمیشہ کی طرح زاد راہ خرچ کرلیا ھے ، بس واپسی کا خرچ پاس ھے سب کیلئے تحفے تحائف بھی لے لئے ھیں ، پر اپنے ھاتھ خالی ھیں پتہ نہیں واپسی کا سفر کتنا لمبا ھے، اللہ کے آسرے الحمدللہ ھمیشہ واپسی بہترین ھوئی، ساری زندگی گزار دی کیونکہ مجھے ھمیشہ ھی بتایا گیا کہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے رب سے اپنی امت کی بخشش اور معافی کا وعدہ لیا تھا، اسی حوصلہ میں زندگی گزار دی اب کچھ حضرات کہتے ھیں کہ جناب جو دنیا میں کیا ھے اس کا حساب تو دینا ھوگا، اسکی جزا اور سزا کے بعد آپ کی معافی آپ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعا کے مطابق کردی جائے گی اور آپ جنت میں داخل کردیئے جائیں گے، بے شک میرے اللہ بہتر جانتے ھیں، میرا سفر واپسی کا شروع ھے اور ھمیشہ کی طرح اپنے آپ کو رب کے حوالے کردیا ھے، آیت الکرسی ، درود ابراہیمی، کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت بار بار پڑھتا ھوں، استغفراللہ کی تسبیح بھی کرتا ھوں، ساتھ ساتھ اللہ تعالٰی کی وحدانیت کا ذکر بھی سورہ اخلاص کے ذریعے جاری رکھا ھوا ھے، میں پر امید ھوں ھمیشہ کی طرح کہ میرے اللہ مجھے اس دفعہ بھی منزل پر خیر خیریت سے پہنچائیں گے، انشاءاللہ، اور انکو تو سب پتہ ھے، مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ھے، وہ مجھے ھمیشہ روشنی میں ھی رکھیں گے انشاءاللہ

Prev محبت کون بھولتا ھے
Next پاکستان

Comments are closed.