وقت

وقت
تحریر محمد اظہر حفیظ

جب سے ھوش سنبھالا حالت سفر میں ھوں۔ کبھی وقت محدود تھا اور کبھی وقت ملا ھی نہیں پھر بھی ھم دونوں سفر میں رھے۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ وقت نکال کر کوئی نہ کوئی تصویر بنا لوں۔ بن بھی جاتی تھی ۔ کیمرے ھر طرح کے تھے میرے پاس۔ کبھی ھوائی تصاویر بذریعہ ڈرون اور کبھی زمینی تصاویر۔ سلسلہ چلتا رھا وقت گزرتا رھا۔ میں نے مصروفیت، آرام پر بھی اپنے عشق کو توجہ دی اور بلاوجہ تصاویر بناتا رھا۔ کم سے کم وقت کا بہترین استعمال کیا۔ دو ھفتے ھوگئے ھیں لاھور میں اس دفعہ اکیلا ھی آگیا ساتھ، بیوی، بیٹی، بھائی ھیں پر کیمرہ نہیں ھے۔ وقت بہت ھے سارا دن فارغ ھی ھوتا ھوں پر تصاویر نہیں بناتا۔ بناوں بھی تو کیسے، لوگ کہتے ھیں لاھور میں سموگ ھے سکول بند کردو، دفتر بند کردو مجھے تو کہیں نظر نہیں آئی بند کمرے میں آئے بھی تو کیسے۔ عجیب فراغت ھے وقت ھی نہیں ھے۔ نہ گوالمنڈی امرتسری ھریسہ کھانے گیا ۔ نہ کسی نے ھر دفعہ والی کہانی سنائی کہ سابقہ وزیر اعظم کے گھر یہاں سے ھریسہ جاتا ھے، نہ بھیا کباب والے کی طرف گیا، نہ شالیمار باغ گیا، نہ جہانگیر کے مقبرے گیا، لاھور بہت بڑا ھوگیا ھے شہر کے اندر فاصلے تیس چالیس کلومیٹر عام سی بات ھے، سارا لاھور ایک طرف اور ڈی ایچ اے ایک طرف ۔ شاید جس لاھور کو میں جانتا تھا ڈیفینس ھاوسنگ اتھارٹی اس لاھور سے بڑی ھے۔ وقت بدل رھا ھے۔ میں نے لوگ بدلتے دیکھے ھیں پر لاھور کے بدلنے پر حیران ھوں۔ لاھور بھی لوگوں جیسا نکلا۔ بیٹی کی پاسپورٹ سائز کی تصویر بنوانا تھی۔ مجھے نہیں سمجھ آرھی تھی کہ کہاں سے بنے گی ۔ کئی دفعہ گوگل کیا پر سمجھ نہیں آئی۔ میری گوگل سرچ کرتی مشکوک حرکات دیکھ کر میرے بھائی وسیم بولے وقت بدل گیا ھے جانی تو پریشان نہ ھو میں صبح بنوا دوں گا۔ مال روڈ اور نسبت روڈ بہت دور ھے تصویر تو خیر بن جائے گی پر میں حیران ھوں لاھور ھو کر بھی میرے پاس وقت نہیں ھے کہ میں نسبت روڈ جاوں۔ نیشنل کالج آف آرٹس لاھور جاوں، لارنس گارڈن کے گول گپے، ربڑی فالودہ کچھ بھی تو نہ یاد آیا اور نہ کہیں گیا۔ بھائی وسیم کہنے لگا چل یار گاڑی چلا ۔ میں نے جب کہا مجھے راستے نہیں آتے گم ھو جاوں گا۔ تو وہ حیران رہ گیا۔ کیونکہ ایک وقت تک میں لاہوریوں سے زیادہ لاھور کو جانتا تھا لوگ مجھ سے لاھور کے راستے سمجھتے تھے اور پوچھتے تھے۔ مجھے راستے بھولنا بھی ھمیشہ سے اچھا لگتا ھے پر جب کیمرہ ساتھ ھو۔اکیلے نہ مجھے راستے آتے ھیں ھیں نہ ھی گاڑی چلانا۔ بیوی میری پوچھتی رھتی ھے کیا سوچ رھے تھے۔ کیا کہوں۔ بس کچھ بھی تو نہیں کہہ کر بات ٹال دیتا ھوں۔ عجیب بے وفا شخص ھوں۔ وفا نبھانے بھی نہیں گیا ۔ بلکہ شاید لاھور ھی نہیں گیا۔ کتنا عجیب وقت ھے ایک شخص لاھور میں رھتے ھوئے لاھور نہ جائے۔ اب سوچتا ھوں کہ اگر وقت کے حکمرانوں کو فصیل شہر بنانی پڑ جائے تو شاید اس شہر کی فصیل بنانے کیلئے پاکستان کا ٹوٹل بجٹ کم پڑ جائے ۔ فوڈ سڑیٹ تین عدد بنائی گئیں تھیں پتہ نہیں وہ اپنی جگہ پر ھیں یا پھر وہ بھی نئے لاھور شفٹ ھوگئی ھیں۔ کل ڈھونڈتا رھا ۔ انارکلی ڈی ایچ اے، لبرٹی ڈی ایچ اے، بھاٹی گیٹ ڈی ایچ اے، موچی گیٹ ڈی ایچ اے، ٹولینٹن مارکیٹ ڈی ایچ اے، شاہ عالم مارکیٹ ڈی ایچ اے، لکشمی چوک ڈی ایچ اے، یونیورسٹیاں تو بہت نظر آئیں ڈی ایچ اے میں پر نیشنل کالج آف آرٹس ڈی ایچ اے کہیں نظر نہیں آیا۔
شاید میں بہت پرانا ھوگیا ھوں۔ مجھے کھلی سڑکیں، بڑے گھر، دور دور رھتے لوگ پسند نہیں ھیں یہ کیسے فارم ھاوسز ھیں جنکا کوئی تھڑا نہیں ھے جہاں بیٹھ کر گپ شپ لگائی جاسکے۔ سارے ڈی ایچ اے میں ایک فال والا نہیں ھے پر طوطے بہت ھیں۔ ھمارے کچھ دوست سارا دن سوشل میڈیا پر پرانے لاھور کی تصاویر لگاتے ھیں اور اس پر گفتگو کرتے ھیں۔ رھتے وہ نئے لاھور میں ھیں میری ذاتی رائے میں انکو لاھور پر بات کرنے کا حق ھی نہیں ھے اور نہ ھی وہ لاھور کو جانتے ھیں۔پرانے لاھور کو بھی کچھ لوگ اٹلی، ترکی بنانے کے در پر ھیں اور بنائی جارھے ھیں۔ سچ بتاوں پورے ڈی ایچ اے میں ایک بھی تصویر نظر نہیں آئی جہاں احساس ھوتا کہ کیمرہ کیوں نہیں ھے میرے پاس۔ اور اگر میں اس لاھور میں ھوتا جس کو میں جانتا تھا تو شاید سانس لینا مشکل ھوجاتا اپنی بے بسی پر رو پڑتا ۔ بہت دفعہ سوچا کبھی لاھور جاوں پندرہ دن یا مہینے کیلئے اور کسی کو نہ بتاوں نہ ھی کسی سے ملوں بس تصویریں بناوں۔ ساری خواھش مکمل تو پوری نہیں ھوتیں شاید یہ بھی امتحان ھے وقت بہت ھے پر نہ تصویر ھے اور نہ ھی کیمرہ ھے۔ دو نئی آبادیاں ھیں بحریہ ٹاؤن راولپنڈی اور ڈی ایچ اے لاھور میراخیال ھے ایک وقت آئے گا کہ انکی تیزرفتاری سے بڑتی پلاننگ درمیان کے شہر ختم کر دے گی۔ بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے بعداگلی آبادی ڈیفنس ھاوسنگ اتھارٹی لاھور شروع ھوجایا کرے گی۔ سنا تھا سپنی اپنے بچے کھا جاتی ھے یہ نہیں پتہ تھا کچھ نئی آبادیاں آبادیوں کو کھا جاتی ھیں۔ جس لاھور کو میں جانتا تھا وھاں داخلے کیلئے ٹول پلازہ پانچ روپے راوی پر ادا کرنا پڑتا تھا وہ اب شاید تیس روپے ھوگیا ھے پر نئے لاھور میں کئی جگہ پر آپکو پچاس اور پینتالیس روپے ادا کرنے پڑتے ھیں۔ یہ کیسی ترقی ھورھی ھے۔ وقت بےوقت بدل رھا ھے۔ بہت بڑے بڑے گھر اور فارم ھاوسز ھیں پر سب خالی ھیں کیونکہ انکو نہیں پتہ ساتھ والے گھر میں کون رھتا ھے تو پھر ایسے آباد گھر کو خالی ھی سمجھا جائے۔ یہ مسجد چوک ڈی ایچ اے ھے تمام مشہور اور بڑے لوگوں کے جنازے یہاں ھوتے ھیں۔ سوچا پہلے اس کو جناز گاہ کہتے تھے۔ جہاں جنازے ھوتے تھے۔ اب نئے لاھور میں مسجد کہتے ھیں۔ کیا وجہ شہرت ھے۔ وقت بدل چکا ھے بات نماز سے نماز جنازہ تک پہنچ چکی ھے۔ اور لاھورے بے خبرے کھابے کھا رھے ھیں ۔ کوئی تو آواز بلند کرے ختم ھوتے لاھور کو بچا لے ۔ لاہوریوں کا خیال ھے لاھور بڑا ھوتا جارھا ھے۔ اصل میں لاھور چھوٹا ھورھا ھے سمجھنے کی ضرورت ھے۔

Prev میری آنکھیں نکال لو
Next میرے لاھوریے

Comments are closed.