پھر سب پوچھتے ھیں

پھر سب پوچھتے ھیں
تحریر محمد اظہر حفیظ

جو سوچتا ھوں لکھ دیتا ھوں پھر سب پوچھتے ھیں کس کیلئے لکھا ھے، میں اپنا حال لکھتا ھوں لوگ اسے میرے ملک کا حال سمجھتے ھیں، میں اپنی چاک دامنی پر گریہ کرتا ھوں پھر سب پوچھتے ھیں روتے کیوں ھو، جب روتے روتے مسکرانے لگتا ھوں پھر پوچھتے ھیں اب کیا ھوا ھے، ضروری تو نہیں جس پر مسکرایا یا رویا جائے وہ ابھی کا واقعہ ھو وہ حادثہ کچھ عرصہ پہلے کا بھی تو ھوسکتا ھے، سڑک کنارے گاڑی کھڑی کرکے سو جاو تو پولیس آجاتی ھے یہاں کیوں سو رھے ھیں اور اگر موٹروے کی آرام گاہ پر گاڑی روک کر سو جاو تو شیشہ صاف کرنے والا آجاتا ھے سوئے ھوئے کو اٹھا کر کہتا ھے، شیشے صاف کردیئے ھیں، گھر میں سو جاو تو پوچھتے ھیں خیریت آج جلدی سوگئے، جاگتے رھو تو کیا پریشانی ھے سو نہیں رھے، گاڑی میں پرانے گانے لگا لو تو کس کی یاد آرھی ھے نئے لگا لو تو اس عمر میں جوانی خیر تو ھے، بال رنگ لو تو کس کے چکر میں ھیں، نہ رنگو تو کس کا دکھ ھے، خاموش رھو تو کیا دکھ پال لیا ھے، بات کرو تو، خیر تو ھے نہ بہت چہک رھے ھیں، بال نہ کٹواو تو مجنوں جیسا حال کیوں بنا رکھا ھے، کٹوا لو تو کس کے لئے بن سنور رھے ھیں، پرفیوم لگا لو تو آجکل کچھ زیادہ ھی پرفیوم کا استعمال ھے نہ لگاو تو آپ کو کیا ھوگیا ھے بلکل بھی اپنا خیال نہیں رکھتے پسینے کی بو آرھی ھے کیوں بنا رکھا ھے آپ نے ایسا حال، آپ تو ھر سال گاڑی بدل لیتے ھیں نہ بدلو تو اتنے پیسے جوڑ کر کیا کریں گے کچھ اپنے اوپر بھی لگا لیا کریں، دنیا اور اس کے سوالوں سے میں بہت تنگ ھوں، دامن کوہ کی طرف جائیں تو ایک پولیس چیک پوسٹ ھے، اکیلے کدھر جارھے ھیں اور اگر ساتھ کوئی ھو تو تعارف کروائیں، اکثر اکیلا ھی ھوتا ھوں سر جی خیر ھے بڑے دکھی ھیں کیا مطلب دکھی ھیں مکیش صاحب کو سن رھے ھیں، کدھر جارھے ھیں جی کراچی پر یہ تو دامن کوہ کا راستہ ھے تو پھر ادھر ھی جارھا ھوں، اکیلے جا کر کیا کریں گے جی تصویریں بناوں گا، موسم تو نہیں ھے تصویروں کا، کیا آپ فوٹوگرافر ھیں، نہیں جی پولیس والا، اپنے کام سے کام رکھو اور وقت ضائع مت کرو، جاو صاحب جی ناراض تو نہ ھوں۔ اوپر جاکر کہیں کھڑے ھوجائیں ھر گاڑی، ھرموٹرسائیکل والے کا فرض ھے رک کر پوچھے تصویر بنا رھے ھیں، کیمرہ مینوئل پر استعمال کرتے ھیں یا آٹو پر، کس کی تصویر بنا رھے ھیں، میرے پاس بھی ڈی ایس ایل آر ھے پر میں سیاحتی مقام پر کھڑا ھوکر شوخیاں نہیں مارتا، کون سے چیننل سے ھیں، مجھے سوال پسند نہیں ھیں اور یہاں سوال کرنا ھر کسی کا فرض ھے خاموش رھو تو بڑا مزاج ھے جناب کا، جواب دو تو سوالوں کی ایک لمبی فہرست، پتہ نہیں لوگ اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتے، کئی سال لگائے پڑھنے میں کہ یہ پامسٹری، اسٹرالوجی، نمبرالوجی، کیا ھے پھر یہ جان کر حیرانگی ھوئی کہ لوگ کسی اور سے اپنے بارے میں وہ سب جاننا چاھتے ھیں جسکا انکو خود علم ھے تو ان علوم کو بھی اللہ حافظ کہہ دیا، میں نے سنا ھے کہ قبر میں بھی سوال ھونگے اور بروز حشر بھی سوال ھونگے کوئی ھے جو اس دنیا کو سمجھائے کہ مہربانی فرماکر اس دنیا کو کم از کم قبر نہ بنائیں اور نہ ھی اپنے سوالات سے حشر برپا کریں۔ پچاس سال زندگی کے سوال سنتے اور جواب دیتے گزار دیئے، آج دیر سے کیوں آئے ھو، آج بہت جلدی آگئے، طبعیت ٹھیک ھے، فون بہت مصروف تھا، لاھور باربار کیوں جاتے ھیں، ساتھ کون ھے، دن کیسا گزرا، سارا دن رابطہ ھی نہیں کیا، کہاں ھیں، کیا کیا لیکر دفتر جانا ھے، میں تھک چکا ھو کبھی کبھی سوچتا ھوں دفتر تو جاوں پر اپنا آپ بھی ساتھ لیکر نہ جاوں، دفتر کے راستے سے غائب ھوجاوں، نہ کوئی سوال کرے اور نہ ھی میں کوئی جواب دوں، کبھی راجہ بازار کی فٹ پاتھ پر سوجاوں، اور کبھی ننگے پاوں صحرا میں بھاگوں میرے پاوں جل جائیں ان پر چھالے پڑ جائیں، کبھی برف پوش پہاڑوں پر ٹی شرٹ پہن کر جاوں سردی لگ جائے دانت بجیں سردی سے اور تیز بخار ھوجائے اور کوئی نہ پوچھے آپکو تو بخار ھوا ھے، بس باقی جو بھی زندگی بچی ھے خواھش ھے کہ کوئی سوال نہ ھو اور اگر مجھے جواب پتہ بھی ھو تو میں جواب نہ دوں۔ میری ایک درخواست ھے کہ زیادہ زندگی میں نے جواب دینے میں ھی گزار دی، اب اگر آپ سوال نہ کریں تو میرے لیئے آسانی ھوجائے، شاید یہ دنیا بھی جنت ھوجائے۔

Prev نہ جانےکب
Next اسرائیل

Comments are closed.