پہلے جیسا

پہلے جیسا
تحریر محمد اظہر حفیظ
کچھ دوست احباب ، عزیز واقارب کا شکوہ ھے آپ پہلے جیسے نہیں رھے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی یہ کیسے ممکن ھے۔ تیس سال سے زائد عرصہ سے میں سیروسیاحت، فوٹوگرافی،فائن آرٹ،ڈیزائن کا طالبعلم ھوں۔ میں نے آج تک کوئی بھی صبح پہلے جیسی نہیں دیکھی کوئی بھی دوپہر پہلے جیسی نہیں دیکھی کوئی بھی شام یا رات پہلے جیسے نہیں دیکھی کوئی بھی دن، ھفتہ،مہینہ، سال پہلے جیسا نہیں دیکھا، کوئی موسم پہلے جیسا نہیں دیکھا،کوئی بچہ،جوان،بوڑھا پہلے جیسا نہیں دیکھا،کوئی درخت،پہاڑ،دریا،سمندر،آسمان پہلے جیسا نہیں دیکھا،کوئی ناشتہ،کھانا پینا ذائقہ پہلے جیسے محسوس نہیں کیا، کوئی ھنسنا، رونا پہلے جیسا نہیں دیکھا،کوئی چیخنا،چپ رھنا پہلے جیسا نہیں دیکھا، کوئی دھوپ،کوئی چھاوں پہلے جیسی نہیں دیکھی، کوئی گاوں،شہر،سڑک،موٹروے پہلے جیسی نہیں دیکھی ھر چیز ھر لمحہ بدلتی ھے ۔ بطور فوٹوگرافر دیکھا ھے اگر ایک ھی انسان کی روزانہ سو تصاویر سو سال تک اتاری جائیں تو ھر تصویر مختلف نظر آتی ھے ۔ ایک جگہ پر کیمرہ سٹینڈ لگا دیا جائے 24 گھنٹے کا ٹائم لیپس لگایا جائے جو ھر ایک منٹ بعد تصویر بنائے اور پورا سال تصاویر بنتی رھیں تو کوئی بھی تصویر ایک جیسی نہیں ھوگی سب مختلف ھوں گی۔ ایک استاد پچیس سال ایک ھی مضمون پڑھاتا رھے اس کا روز کا لیکچر بھی روز مختلف ھوگا، ایک اخبار جو روز چھپتا ھے اس کی خبریں،تصاویر،سرخیاں،شہ سرخیاں بھی روز مختلف ھوتی ھیں، کوئی موسی تھا کوئی فرعون تھا کوئی آدم تھا،کوئی ھارون تھا، کوئی اورنگزیب تھا کوئی اکبر تھا کوئی محمد علی جناح تھا کوئی گاندھی تھا کوئی ضیاء الحق تھا کوئی ایوب تھا کوئی مشرف تھا کوئی فضل الہی تھا سب چلے گئے بس بھٹو ابھی تک زندہ ھے کیا تم چاھتے ھو میں بھٹو کی طرح زندہ رھوں مجھے معاف کردو۔ سب چلے گئے میں کون ھوں جو رھوں
ایک سبزی اگائی جائے ھر سبزی کی شکل مختلف ھوتی ھے، ایک ھی گھر میں مختلف بہن بھائیوں کی طبعیت روزانہ کی بنیاد پر مختلف ھوتی ھے کبھی انہی چیزوں کا مزہ لے رھے ھوتے ھیں اور کبھی اسی سے اکتا جاتے ھیں، عبادت بھی روزانہ ھمیں مختلف سکون دیتی ھے کبھی رولا دیتی ھے اور کبھی چپ کرا دیتی ھے، ھر دفعہ ھر قرہ اندازی میں مختلف نمبروں پر مختلف انعام نکلتے ھیں، ایک ھی سڑک پر ایک ھی سپیڈ سے چلیں منزل پر پہنچنے کا وقت ھر دفعہ مختلف ھوتا ھے۔ ایک ھی دوست کے گلے لگ کر کبھی آپ روتے ھیں کبھی چپ ھوتے ھیں اور کبھی قہقہے لگاتے ہیں، ایک ھی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے سب بچے مختلف ھوتے ھیں شکلیں مختلف،رویے مختلف،تعلیم مختلف، 
ایک ھی سکول ایک ھی جماعت کے سب بچے بچیاں مختلف، ایک ھی سڑک پر چلنے والی ٹریفک مختلف۔کرکٹ پر جوئے کا ریٹ مختلف، ایک ھی باغ ایک درخت پر لگے پھلوں کے ذائقے مختلف،
اے اللہ کے بندو میں کون سا پتھر کا بھگوان ھوں جو ایک جیسا رھوں جیسے جیسے حالات سے مجھے میرا رب گزارتا ھے، مجھ میں بھی تبدیلیاں آتی ھیں، پہلے میں ماں باپ کی آنکھوں کا تارہ تھا آج میری اپنی چار بیٹیاں میری آنکھوں کی ٹھنڈک ھیں، ایک دن ماں چلی گئی میں مسکین ھوگیا پھر باپ چلا گیا میں یتیم ھوگیا، پھر دوست احباب میں تبدیلیاں، ذریعہ روزگار میں تبدیلیاں،صحت اور بیماری میں تبدیلیاں، افسران کی تبدیلیاں، ذرائع آمدن میں تبدیلیاں، سیاست اور ممالک میں تبدیلیاں، علم میں تبدیلیاں، آسان سجدے مشکل ھونے لگے،کبھی گھٹنے کبھی بازو دکھنے لگے، حالات کبھی آسان اور کبھی مشکل ھونے لگے، رستے کبھی کھلے اور کبھی بند ملنے لگے،
گاڑی کبھی پرانی اور کبھی نئی ملنے لگی بچے کبھی فیل کبھی پاس ھونے لگے، نرسری،سکول،کالج، یونیورسٹی جانے لگے،نوکری ڈھونڈنے سے ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آنے لگا۔ اللہ کے نیک بندو میں کون ھوں کیا ھوں جو ایک جیسا ھی رھوں درختوں کے سائے صبح کہیں دوپہر کہیں شام کہیں ھوتے ھیں،میں پہلے بچہ تھا اب بچوں والا ھوں، پہلے جوان تھا اب میری اولاد جوان ھے پہلے میرے والدین بزرگ تھے اب میں خود بزرگ ھوں، پہلے ھر عید پر نئے کپڑے ملتے تھے اب یاد نہیں کونسی عید پر نئے کپڑے لیئے تھے، پہلے جیب خرچ ملتا تھا اب دیتا ھوں، پہلے طالبعلم تھا آج استاد ھوں، مجھے سب بدلتا ھوا نظر آتا ھے جو کل بادشاہ تھے آج پابند سلاسل ھیں جو کل کھلاڑی تھے آج بادشاہ ھیں نہ کل والے حکمرانوں نے پہلے حکمرانوں سے سبق سیکھا نہ یہ سیکھ رھے ھیں، دعوے وعدے سب کے وھی۔ یار جب میں آپ کو پہلے جیسا دیکھنے کی خواھش نہیں رکھتا تو آپ کیوں ایسا سوچتے ھیں۔ جب سب بدل رھا ھے ڈالر روز قیمت بدلتا ھے روپیہ روز قیمت کم کرتا ھے ، دریا روز مختلف پانی بہاتے ھیں سمندر کبھی چڑھتے کبھی اترتے ھیں جہاز چڑھتے اور اترتے ھیں ٹرین لاھور سے چلتی ھے کراچی جا کر رکتی ھے، وزیراعظم روز اپنے بیان سے مکرتا ھے، عوام آسانی سے مشکل کی طرف جارھے ھیں، آبادی روز بروز بڑھ رھی ھے، قبرستانوں کے مکین بھی زیادہ سے زیادہ ھوتے جارھے ھیں میں بھی ایک دن وھیں جابسوں گا تم کیوں مجھے ایسا ھی دیکھنا چاھتے ھو ھر عروج کو زوال ھے۔ جو سیڑھیاں ھم چڑھتے ھیں وہ اترنا بھی پڑتی ھیں جن راستوں پر جاتے ھیں واپس بھی آتے ھیں تو میں کون ھوں جو ویسا ھی رھوں میں تو پانی جیسا ھوں جس برتن میں ڈالتے ھو اس کی شکل اختیار کر لیتا ھوں اگر تم کو اعتراض ھے تو میرے دوستو میرے ھم نوا مجھے کیوں بار بار مختلف شکلوں میں ڈالتے ھو، اور پھر چاھتے ھو میں پہلے جیسا ھی رھوں یاد رکھنا وہ میری تصویریں ھی ھیں جن کے کردار خود بدل جاتے ھیں پر وہ ویسی ھی رھتی ھیں بہتر ھے مجھے بھول جاو اور میری وہ تصویر جو تمھیں پسند ھو اپنے پاس رکھ لو، وہ ھنستی ھو یا پھر روتی ھوئی میرا آپ سے بطور فوٹوگرافر وعدہ ھے وہ کئی سال تک پہلے جیسی ھی رھے گی پر میرے لیئے شاید یہ ممکن نہیں کیوں کہ میں ایک فوٹوگرافر ھوں تصویر نہیں۔

Prev ساتویں تصویری نمائش
Next بیس سال ساتھ ساتھ

Comments are closed.