چلتا جارھا ھوں

چلتا جارھا ھوں
تحریر محمد اظہر حفیظ
سردیوں کی سرد رات تھی گاوں میں ھمارے گھر کےباھر گلی سے بیلوں کے چلنے کی آواز آرھی ھے ان کے گلے کی گھنٹیاں بھی اداس میوزک بجا رھی تھیں جیسے کہ رو رھی ھوں اور ساتھ ایک شخص رو رھا ھے چیخ رھا ھے ترلے کر رھا، بلک بلک رو رھا ھے پکار رھا ھے مسافر ھوں راستہ بھول گیا ھوں میں اور میرے بچے سردی سے مر جائیں گے ھمیں پناہ دے دو ۔ پر کوئی بھی ڈر سے دروازہ نہیں کھول رھا کہ کہیں ڈاکو ھی نہ ھوں۔ یہاں تک کہ کوئی دیوار کے اوپر سے دیکھنے کی جرات بھی نہیں کررھا۔ وہ سارے گاوں کے چکر لگا رھا تھا پر کسی کو اس پر رحم یا ترس نہیں آرھا تھا اور کوئی اس کو پناہ نہیں دے رھا تھا۔ آج رات کے پچھلےپہرسوچتا ھوں۔ شاید وہ کوئی اور نہیں تھا میں ھی تھا۔ مجھے اس شخص کو پناہ دینی چاھیئے تھی پر میں تو بہت چھوٹا تھا۔ مجھے اپنے ماں باپ کو قائل کرنا چاھیئے تھا شاید مجھے اس شخص کی یا اس کے بچوں کی بددعا لگ گئی ھے اب میں بھی اس شخص جیسا ھوں جو اپنے بیوی بچوں ساتھ سفر پر نکلا ھے اور راستہ بھول گیا ھے بھٹک گیا ھے اور کوئی راھنمائی کرنے والا بھی نہیں ھے۔ اور نہ ھی کوئی پناہ دینے والا۔ کبھی سوچتا ھوں گاوں چلا جاوں،پیپل کی چھاوں میں بیٹھوں ،برگد کے درخت پر جھولے جھولوں،نہر پر نہاوں،کنوئیں کا ٹھنڈا میٹھا پانی پیوں،سکول جایا کروں،  اپنے دوست ڈھونڈوں،باتیں کروں ان سے سب
کیا کھویا کیا پایا،
پہلے گاوں بیچ شہر آیا تھا،اب شہر بیچ گاوں چلا جاوں، پر یہ سب کیا ھوگیا گاوں بھی شہر ھوگیا، ھر طرف دیواریں ھیں بغیر دروازوں کے۔ کوئی کسی کو نہیں جانتا جیسے قبرستان ھو۔ سب کے نام کی تختیاں تو لگی ھوئی ھیں پر پتہ نہیں کون رھتا ھے عمر کیا ھے، پڑھا لکھا ھے یا ان پڑھ ھے، خوش ھے یا اداس ھے،کوئی خیر خبر نہیں سب اپنی اپنی قبروں میں چھپے بیٹھے ھیں۔
حساب کتاب دے رھے ھیں کیا کھویا کیا پایا، اور پچھتارھے ھیں کہ اچھے سنگ ترے یار کچھ تو اچھا کیا ھوتا، اچھوں ساتھ بیٹھا ھوتا، ھوا کیا ھے یہ گاوں شہر جیسا کیسے ھوگیا،سب کو اپنی اپنی پڑی ھے کوئی کسی کو نہیں پہچان پارھا۔ عجیب اپا دھاپی ھے ۔
نہ کچھ کھانے کو ھے نہ پینے کو موسم بھی بہت شدید ھے جیسا کہ مذھبی شدت پسند ھو آج تو لگتا ھے جان ھی لیکر چھوڑے گا۔ کبھی مجھے سیاچن کا منفی موسم یاد آجاتا ھے اور کبھی سوچ کر ایسے پسینہ آتا ھے جیسے تھرپارکر ھو اور پیاس کی شدت سے میں مر رھا ھوں۔ شاید قیامت کا دن ھی ھے سورج سوا نیزے پر ھے اور حلق میں کانٹے چب رھے ھیں۔ کہاں گئے میرے گاوں کے لوگ جو ایک مسجد میں سب نماز پڑھتے تھے مسجد میں اتنے کم لوگ کیوں ھیں کیا ھوا میرے گاوں کے لوگو کچھ تو بتاو کیا ھوا۔ اچھا تو بڑے سارے مر گئے ھیں تو چھوٹے کدھر ھیں وہ بھی تو اب بڑے ھوگئے ھوگے وہ سب بٹ گئے ھیں اور سب اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں باجماعت نماز ادا کر رھے ھیں اور ایک دوسرے کو کافر سمجھتے ھیں۔ کیا مطلب جس گاوں میں دوسرے مذھب کا ایک بھی گھر نہیں تھا ساتھ والے گاوں سے صفائی ستھرائی کیلئے ایک خاندان لائے تھی جی بلکل اب تو کافی سارے کافروں کے گھر ھیں ۔ پولیس کیوں آئی ھوئی ھے جی یہ کافر ایک دوسرے سے جھگڑتے ھیں پولیس بچ بچا کرانے آئی ھوئی ھے اب تو اپنے گاوں میں پولیس اور رینجرز کی چوکیاں ھیں فساد سے بچنے کیلئے۔ یہاں بھی سب فوت ھوگئے
جیسے شہر میں میرے ماں باپ میرے دوست احباب اب کہاں جاوں
بے وقت میں نے چھوڑا
گاوں بھی شہر بھی.
چلتا جا رھا ھوں دیکھو شاید مل جائے مجھے شہر یا گاوں

Prev لاھور دور ھوگیا
Next پاگل دے بچے

Comments are closed.