چل فر

چل فر

تحریر محمد اظہر حفیظ

مجھے تو بس تھوڑے آسرے کی ضرورت ھوتی ھے اور میں چل پڑتا ھوں، چلتے چلتے جب تھک جاتا ھوں تو آواز آتی ھے چل فر میں پھر سے چل پڑتا ھوں، بچپن میں مجھے کوئی بھی چلنے کیلئے نہیں کہتا تھا پر میں خود ھی اپنے آپ سے کہہ کر چل فر چل پڑتا تھا، مجھے یاد ھے جب بھی میرے تایا زاد بھائی لائلپور سے گاوں آتے وہ اور میرے بڑے بھائی سکوٹر پر اکثر گاوں سے باھر گھومنے چلے جاتے میرا بھی بہت دل کرتا تھا، پر وہ مجھے کبھی بھی ساتھ لیجانے کا نہیں کہتے تھے میں خود ھی کہتا چل فر اور سکوٹر کے پیچے بھاگتا رھتا اور روتا رھتا، پھر تھک ھار کر واپس آجاتا، امی مجھے سمجھاتی میرے لعل ایسے کیوں کرتے ھو، خواہ مخواہ تھوڑی کسی کے پیچھے جاتے ھیں، پر امی جی میں نے تو خود کو خود ھی کہا تھا چل فر اور میں چل پڑا، امی جی میرے کپڑے بدلواتیں مجھے نہلاتیں کھانا کھلائیں اور ساتھ سمجھاتیں میرا لعل ایسے نہ کیا کر، پر میں کہاں باز آنے والا میرا چچا زاد بھائی بھی ھمارے ساتھ گاوں میں رھتا تھا، پھر ھم دونوں نے دور دور تک پیدل سفر شروع کردیئے، کبھی اپنے گاوں 258 ر-ب پھرالہ سے ڈجکوٹ، کبھی جہانگیر موڑ، کبھی لمباپنڈ، کبھی دسوھے، کبھی نہر پر چلے جانا، بس ناصر بھائی نے آواز لگانی چل فر اور ھم نے چل پڑنا، جب بڑے ھوئے تو کسی نے بتایا کہ مخلص دوست وہ ھوتا ھے جس سے آپ کہیں چل فر اور وہ اٹھ کر چل پڑے نہ کہ سوال جواب کرے کہ کہاں جانا ھے، وقت کتنا لگے گا، واپسی کب ھوگی تو اندازہ ھوا کہ ناصر اور میں مخلص دوست تھے، کبھی نہیں ایک دوسرے سے پوچھا کہ ویرے جانا کتھے، اگر کسی سےلڑائی ھوگئی تو وجہ جاننے کی کوشش کبھی نہیں کی بس لڑ پڑے، گھر آنا امی جی نے دو لگانے کے بعد پوچھنا لڑے کیوں تھے وجہ پتہ ھو تو بتائیں، پھر مار پڑتی، کہاں گئے تھے کس کو بتا کر گئے تھے کیا بتاتے یار کا حکم تھا تعمیل ضروری تھی، بتانے کا وقت ھی نہیں تھا، چوتھی کلاس میں تھے تو پہلی دفعہ اباجی ساتھ مریڑ چوک راولپنڈی آئے میں اور بھائی، یہاں پر خالہ زاد بھائی میاں نواز احمد، بھائی میاں طاھر افضل، بھائی میاں جاوید بشیر کے ھم مہمان تھے، طاھر بھائی مجھے اور بھائی کو موٹر سائیکل پر خوب سیر کراتے تھے، وہ مجھے پیار سے نمبردار کہتے تھے، کہتے چل فر نمبردارا سیر نوں چلیے اور ھم تھے ھر گھڑی تیار گامزن اور چل پڑتے، دو ھی جگہ تھیں ایوب پارک راولپنڈی یا پھر راول ڈیم اسلام آباد۔

تقریبا ھر دو دن بعد چکر لگ جاتا تھا گرمیوں کی چھٹیاں تھیں اور خوب مزے گئے،

واپس گاوں پہنچے دو مہینے بعد تو اب میرا کینوس بڑا ھوچکا تھا اب مجھے دامن کوہ، شکرپڑیاں، راول ڈیم، ایوب پارک بہت یاد آتے اور مجھے گاوں میں گھومنا پھرنا اتنا پسند نہ رھا، پھر چھٹی کلاس میں ھم راولپنڈی مستقل آگئے اور ناصر بھائی لائلپور چلے گئے، یاروں میں لمبا وچھوڑا آگیا، اب اکیلا ھی موٹرسائیکل اور سائیکل پر گھومتا رھتا، مجھے اپنے سکول کے ساتھ پارک بہت پسند تھا اور کمرشل مارکیٹ راولپنڈی کا پارک مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کیونکہ وہ میری سوچ سے کہیں بڑا تھا، میڑک میں ھماری کلاس تربیلا ڈیم گئی تو اندازہ ھوا کہ راول ڈیم سے بڑا بھی کوئی ڈیم ھوسکتا ھے، راول ڈیم کا پانی کبھی چلتے نہیں دیکھا تھا بس سوچتا تھا یہ جو سلائیڈز بنی ھوئی ھیں اس سے سلائیڈ لیتا کون ھوگا، یہ اچھا کیا نیچے پانی ھے ورنہ گرنے پر چوٹ بہت لگنی تھی اگر ناصر بھائی ساتھ ھوتے تو ھم نے کوشش ضرور کرنی تھی،، پر تربیلا ڈیم کی سلائیڈز دیکھ کر تو میں پریشان ھی رہ گیا اتنی بڑی اور بلند سلائیڈز ابھی نیچے پانی دیکھ کر شکر ھی کر رھا تھا کہ لوھے کے گیٹ کھلنا شروع ھوگئے اور پانی بہت تیزی سے آنا شروع ھوگیا ھم سب محفوظ جگہ پر تھے پر پانی کی فوار پھر بھی محسوس ھورھی تھی میں نے فورا اپنا واک مین اور کیمرہ بیگ میں ڈال لیا، کہیں گیلا نہ ھوجائے، اس کے بعد تو پھر قسمت ایسی کھلی کہ ھر طرف سے آواز آنا شروع ھوگئی چل فر اور میں چلتا ھی چلا گیا، پاکستان کے سارے دریا، بیراج، سمندر، ڈیم دیکھ چھوڑے، وزیرستان سے چولستان، گوادر سے سیاچن جہاں سے آواز آئی چل پھر تو میں چل پڑا، بہت سی جگہوں پر جان کا بھی خطرہ تھا پر ڈرتا کون ھے جب آواز لگ چکی ھو، چل فر

 
 
Prev آو میری آنکھوں سے دیکھو
Next چل نا

Comments are closed.