چل نا

چل نا

تحریر محمد اظہر حفیظ

میرا مجھ سے بہت گہرا تعلق ھے، کبھی تو میں اپنے آپ سے تنگ پڑ جاتا ھوں، کبھی راضی ھوجاتا ھوں، جیسے دو اچھے دوست کرتے ھیں، کبھی دونوں بیٹھ کر رو لیتے ھیں اور اکثر اس بے بسی پر ھنس بھی لیتے ھیں، جب بھی کبھی میں تھک ھار کر بیٹھ جاتا ھوں تو میرے اندر جو محمد اظہر حفیظ رھتا ھے وہ مجھے بیٹھنے نہیں دیتا بس ایک آواز آتی ھے چل نا اور میں پھر نئے جذبے اور ھمت سے چل پڑتا ھوں، جب یہ نہیں تھکتا تو میں کون ھوتا ھوں تھک جانے والا، میرے خیال میں اگر آپ کے اندر جو آپ رھتے ھیں اگر وہ زندہ ھے تو پھر آپ مر نہیں سکتے، اسی طرح کئی دفعہ میں تھک ھار کر لیٹ گیا اور ھائے ماں میں مر گیا ، ھائے ماں میں مرگیا، پر یہ ظالم اندر سے آواز لگاتا ھے چل نا اور میں پھر نئے حوصلے سے چلنا شروع کردیتا ھوں، دیوار چین کا سفر ھو یا پھر فیری میڈوز کا میرے اندر رھنے والا محمد اظہر حفیظ مجھے تھکنے نہیں دیتا، جب بھی منہ سے آواز آئی ھائے میرے اللہ میری بس ھوگئی میرے اللہ نے میرے اندر ھمت پیدا کی اور مجھے میرے اندر سے آواز آئی چل نا اور میں پھر سے چل پڑا، جنوری 2020 سے طبعیت ناساز رھتی ھے پر اس سب کے باوجود الحمدللہ ایک لائلپور میں فوٹوگرافی کی نمائش کی، ھرن مینار، جہانگیر کا مقبرہ، شالیمار باغ، لائلپور گھنٹہ گھر اور بہت سی جگہوں کی فوٹوگرافی کی اور پھر کیمرہ اٹھانے کی ھمت بھی کم ھوگئی اس کے باوجود کئی برانڈ کے اور انڈسٹریل شوٹ کئے، اور جب بھی ھمت جوان دینے لگی اللہ کے فضل سے میرے اندر سے آواز آئی چل نا اور میں چل پڑا، خوش آئند بات یہ ھے اس دوران کئی یونیورسٹیوں میں پڑھایا ساتھ اپنی نوکری کی اور فوٹوگرافی بھی، بس برداشت پہلے سے زیادہ ھوگئی ھے اب ھائے ذرا دیر سے منہ سے نکلتا ھے، ایک فرق پڑا ھے کہ میرے دوست احباب اور فیملی یہ سمجھتی ہے، کہ اب میں بات کم کرتا ھوں، ھروقت غصے میں رھتا ھوں، اور بات بات پر لڑنے پر آمادہ ھوجاتا ھوں، مجھے تو پتہ ھے جب آپ درد برداشت کر رھے ھوتے ھیں تو مسکرانا اور بات کرنا مشکل ھوجاتا ھے، اب میں اسکی پریکٹس کر رھا ھوں کہ دوران درد بھی مسکرا سکوں اور ھنسی مزاح والی باتیں بھی کر سکوں، شاید میں پہلے اچھا فنکار تھا پر اب بھی فنکار تو میرے اندر ھی رھتا ھے، جو مجھے بار بار کہتا ھے چل نا کوشش تو کر اور میں بھی اس کی باتوں میں آکر کوشش شروع کردیتا ھوں، امید ھے کامیاب بھی ھوجاوں گا کیونکہ میری ماں ھمیشہ دعا دیا کرتی تھیں” میرا کالو کرے کوللیاں رب سیدیاں پاوے” کہ میرا کالو پتر بیوقوفیاں کرے اور رب سب سیدھا کردے، ھمیشہ سے ھی سب سیدھا ھوتا آیا ھے امید واثق ھے اب بھی ھوگا انشاءاللہ،
جنہوں نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا تھا اب پھر میرے اردگرد نظر آرھے ھیں، میرا دل ڈر گیا ھے پر میرے اندر رھتا محمد اظہر حفیظ کہتا ھے چل نا گلے لگالے، پر اب زیادہ عمر گزارلینے کے بعد، مزید تجربات کرنے کی نہ میری صحت اجازت دیتی ھے اور نہ ھی
ھمت ھے، میں نے سب سے مخلصانہ محبت کی بغیر کسی لالچ کے پر اب اور ھمت نہیں ھے ، میں سوچ رھا ھوں کہ اس دفعہ میں اپنے اندر رھتے محمد اظہر حفیظ کو پہلی دفعہ مشورہ دوں کہ جو ناراض ھے اس کو ناراض ھی رھنے دے ساری عمر میں نے تمھاری مانی ھے اب تو بھی تو ایک میری مان لے اور میرے ساتھ چل نا۔ اب میں تھک گیا ھوں جھوٹ بول بول کر، جب بھی کوئی پوچھتا ھے طبعیت کیسی ھے،جواب دیتا ھوں جی الحمدللہ کئی دفعہ یہ میرا جواب نہیں ھوتا میرے اندر کی آواز ھوتی ھے، پر جن کو میری ظاھری حالت نظر نہیں آتی وہ میرے اندر کو کیا سمجھیں گے، اچھا مجھے اب دکھ درد ذرا کم ھی محسوس ھوتا ھے، کئی دفعہ تو کوئی بلاوجہ ناراض ھوتا ھے تو میری تکلیف سے ھنسی چھوٹ جاتی ھے، سب سے زیادہ مزا اس وقت آتا ھے جب میں اپنی بیٹیوں کے سامنے اپنی حالت کو سنبھالتا ھوں اور مسکرا کر ملتا ھوں تو ایک کہتی ھے یار بابا کوئی مزاحیہ سی بات سنائیں ، جی اچھا میری بیٹی پر ابھی ذرا مشکل ھورھی ھے، تھوڑی دیر تک سناتا ھوں، اچھا کب تک ٹائم بتائیں، کیا بتاوں پر اندر والا محمد اظہر حفیظ کہتا ھے چل نا سنا دے اور پھر میں مزاحیہ بات سناتے سناتے رونے لگ جاتا ھوں، بابا یار کیا ھوا کچھ نہیں بات بہت مزاحیہ تھی اور یہ خوشی کے آنسو ھیں، نہیں نہ مجھے اصل بات بتائیں، کیا بتاوں بس یہی کہہ دیتا ھوں ، چل نا چھوڑ میرا پتر کوئی اور بات کرتے ھیں اچھا ٹھیک ھے کوئی مزاحیہ سی بات ھو، پھر ان سے نظریں چراتے ھوئے میں موبائل فون میں مصروف ھوجاتا ھوں کیا مزاحیہ بات سناوں،

 

Prev چل فر
Next چل میلے نوں چلیے

Comments are closed.