چوبارہ

چوبارہ
تحریر محمد اظہر حفیظ

میرے گاوں میں سب سے بلند عمارت ماما جی نصیر صاحب کے بیٹے احمد صاحب کیلئے بنایا گیا چوبارہ تھا۔
احمد بھائی نے بی ایس سی آنرز کیا ھوا تھا جب وہ گھر نہیں ھوتے تھے تو میں انکے گھر جاکر چوبارے سے نیچے دیکھتا تو ڈر لگتا تھا یہ پہلی منزل تھی انکے گھر کی ۔ شکر ادا کرتا کہ کھڑکی میں سریے لگائے ھوئے تھے ورنہ شاید باھر دیکھنے کی جرات نہ کر سکتا،
اس سے زیادہ اونچائی کا نہ کبھی سوچا اور نہ ھی سوچ سکا۔ پھر گاوں کے اور کئی گھروں نے بھی چوبارے بنا لئے لیکن مجھے صرف احمد بھائی کا چوبارہ یاد ھے، پھر شہر آگئے اور کئی منزلہ عمارات دیکھیں پر سب اس چوبارے سے چھوٹیں تھیں کیونکہ اب میں بڑا ھوگیا تھا۔
پھر میں نیشنل کالج آف آرٹس لاھور چلا گیا انھوں نے ھم سے ایک عمارت کا ماڈل بنوایا نام تھا ھائی رائز بلڈنگ، سچ میں مجھے نہیں پتہ تھا یہ کیا ھوتی ھے دوستوں سے پوچھا تو پتہ چلا کہ کثیر منزلہ عمارت کو کہتے ھیں۔ ایک چالیس منزلہ بلڈنگ بنائی پلاسٹک شیٹ اور گتہ اس کا میٹریل تھا جب مکمل ھوگئی تو ھاسٹل میں میز پر رکھ دیا تھا۔ رات کو اس کو دیکھ دیکھ کر ڈرتا رھتا کہ اس پر سے گر نہ جاوں۔ چھوٹے سکیل کا ماڈل تھا پر مجھے بہت بلند لگ رھا تھا۔ پھر بہت بلندوبالا عمارات دیکھیں مینار پاکستان، واپڈا ھاوس، فیصل مسجد، سعودی پاک ٹاور، سینٹورس،اسلام آباد سٹاک ایکسچینج، حبیب بینک کراچی پر کوئی بھی عمارت احمد بھائی کے چوبارے سے بلند نظر نہیں آئی، بلندی کا خوف، بلندی پر جانے کا خوف، بلندی سے گرنے کے خوف، یہ سب خوف ھی ھیں جنہوں نے مجھے ایک چھوٹا اور پستہ قدوقامت کا شخص رکھا، ورنہ پتہ نہیں کہاں کہاں سے گرتا، ساری عمر اسی ڈر سے گزر گئی کہ کسی کی نظر سے ھی نہ گر جاوں،
دبئی پاکستان سے تھوڑے فاصلے پر ھے بہت دوست کہتے ھیں آو سیر کرواتے ھیں ۔ ایک دفعہ کینیا سے واپسی پر کچھ گھنٹے کیلئے رکا بھی پر کسی سے ذکر نہیں کیا۔
پر سیر کیلئے کبھی دوبئی نہ جاسکا کہ برج الخلیفہ بھی دیکھنا پڑھے گا اور اور ھوسکتا ھے اس کی اوپر والی منزلوں پر بھی جانا پڑے اسی خوف سے نہیں جاتا، چائنہ گیا بیجنگ اور دوسرے بہت سے شہروں میں گیا پر بلندوبالا عمارات سے بچتا ھی رھی۔
میں دن بہ دن چھوٹا ھوتا جارھا ھوں اور خوش ھوں، شاید چوبارے سے بلند کبھی میں نے سوچا ھی نہیں، میں اپنی چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھتا ھوں اور سناتا ھوں۔ سادہ اور آسان زندگی گزارتا ھوں اسے سے زیادہ کبھی سوچا ھی نہیں۔ اور نہ سوچنا چاھتا ھوں۔ میرے حساب مت لگائے میں ایسا ھی ھوں، اتنا چھوٹا ھوں کہ نہ جمع ھوسکتا ھوں اور نہ ھی تفریق ضرب اور تقسیم کا تو سوچئے بھی مت۔ بس مجھے میرے حال پر چھوڑے دیجئے ، جب کچھ پیسے ھوں گے تو ایک چوبارہ ضرور بناوں گا۔ صرف نیچے دیکھنے کیلئے، اوپر تو میں دیکھتا ھی نہیں، بس ایک دن اوپر چلے ھی جانا ھے۔ اس کا بھی بہت ڈر ھے۔
باقی رب کی رب جانے وھی ھے جو سب جانے

Prev سوچنے تو دے
Next جہاز

Comments are closed.