ڈی این اے ٹیسٹ

ڈی این اے ٹیسٹ
تحریر محمد اظہر حفیظ

ڈی این اے ٹیسٹ ایک انقلابی ریسرچ کے طور پر سامنے آیا۔ لیکن مجبوری یہ ھے کہ یہ صرف انسانوں کا ٹیسٹ کیا جاتا ھے کون کس کی اولاد ھے کون کس کا بھائی ھے، یہ لاش کس کی ھے یہ قتل کس نے کیا ھے، اس کی ماں کون ھے اور باپ کون ھو،
اگر ایک ڈی این اے سوشل میڈیا پوسٹ کیلئے بھی ایجاد کر لیا جائے تو بہت سی پریشانیوں سے نجات مل سکتی ھے۔
آئی ایس پی آر ھمارا ایک بہت قابل اعتماد ادارہ ھے۔
اکثر لوگ اس کے نام کے ساتھ پوسٹ لگا دیتے ھیں کہ جناب ان جگہوں پر جانے سے گریز کریں دھشت گردی کا خطرہ ھے، آئی ایس پی آر ۔ حالانکہ یہ ایک جھوٹی خبر ھوتی ھے اور سوشل میڈیا اس کو بھر پور طریقے سے شیئر کرتا ھے، آجکل کرونا وائرس کے حوالے سے بے شمار خبریں تراشی جاتی ھیں اور خوف حراس پھیلایا جاتا ھے۔ آج میری بیگم کا فون آیا کہ آئی ایس پی آر نے آڈر کیا ھے کہ رات بارہ بجے سارے پاکستان میں ھیلی کاپٹر سے سپرے ھوگا کرونا وائرس کے خلاف۔ کپڑے اور برتن باھر نہ رکھیں اور ھیلی کاپٹر کی آواز سے پریشان نہ ھوں۔ میں نے فورا کہا یہ جھوٹ ھے کیونکہ ایسا کوئی سسٹم ھے ھی نہیں اور خاص طور پر رات کیلئے اور ھمارے ھیلی کاپٹر کم ھی رات میں فلائی کرتے ھیں ۔ کوئی توطریقہ ھو کہ ھم ڈی این اے کر کے اس عقلمند تک پہنچ سکیں جو اس طرح کی جھوٹی خبریں ریلیز کرتے ھیں۔ اور ھماری سادہ عوام کو بیوقوف بناتے ھیں ڈراتے ھیں۔ پر سسٹم نہ ھونے کی وجہ سے یہ لوگ روز کوئی نہ کوئی نئی کہانی پیش کرتے رھتے ھیں، کچھ دن پہلے ایک دوست نے پوسٹ لگائی کہ بڑے شہروں میں کرفیو لگا رھے ھیں اس لئے کھانے پینے کا بندوبست کر لیں، میں نے خبر کا ذریعہ پوچھا تو جواب نہیں تھا پھر پوچھا شیئر کرنے کا مقصد کیا تھا۔ اس پر بھی کوئی جواب نہیں تھا۔ ابھی کچھ عقلمند موٹرویز، میٹرو اور اورنج ٹرین کے پیچھے پڑے ھوئے ھیں ۔ کہ ھسپتال چاھیئے تھے یہ کیوں بنوائیں، دوستو ھر چیز کی اپنی جگہ اھمیت ھے۔ ھسپتال بھی بننے چاھیئے تھے لیکن موٹروے والے فیصلے بھی غلط نہیں تھے۔
لائلپور سے راولپنڈی سات سے نو گھنٹے کا سفر تھا اب تقریبا تین گھنٹے کا رہ گیا، ملتان اب راولپنڈی سے تقریبا ساڑھے چھ گھنٹے پر ھے موٹروے کی وجہ سے، واقعی بہت غلط فیصلے ھوئے جو موٹرویز بنی ھمیں مزید خوار ھونا چاھیئے تھا۔ سفر کی سہولت کو وھی سمجھ سکتا ھے جو سفر کرتا ھے گھر بیٹھے کو کیا پتہ انکے فوائد کیا ھیں۔ کرونا وائرس کے علاج جتنے سوشل میڈیا نے ایجاد کئے ھیں شاید سائنس نہ کر سکتی، گرم پانی، کلونجی، پیر صاحب کے دم، صابن سے ھاتھ دھونا، ماسک اور اس کو بنانے کے طریقے، سینیٹائزر اور اس کے بنانے کے طریقے۔ یار کوئی تو طریقہ ڈھونڈو جس سے ھر پوسٹ کا ڈی این اے ھو سکے کہ اس خبر کا، اس ایجاد کا باپ کون ھے اور ماں کون ھے۔ کچھ دوست سارا دن ڈھونڈتے ھیں ، کاش کوئی تو بری خبر ھو جس کا پروپیگنڈا کیا جا سکے، عورتوں کے حقوق، ٹرانس جینڈر کے حقوق، طلاق لینے کے طریقے، بچوں کے قتل، مدرسوں کے سکینڈلز، تیزاب گردی، دوستو اگر غور کرو تو ھمارا معاشرہ، ھمارا ملک اتنا برا نہیں ھے جتنا سوشل میڈیا دکھا رھا ھے۔ کچھ نفسیاتی مریض اس طرح کی گھٹیا حرکات کرتے ھیں انکو ضرور قرار واقعی سزا دی جانی چاھیئے اور سرعام دی جانی چاھیئے، پر صرف ان واقعات کو ڈسکس کرنا ھی کیا سوشل میڈیا ھے۔ ھم کس جنگ کا شکار ھورھے ھیں جس کا نہ سر ھے اور نہ پیر ھے، ھم خود ھی کسی کو پیر بناتے ھیں آسمان تک لے جاتے ھیں اور پھر خود ھی اس کو پاوں تلے روندنا شروع کر دیتے ھیں۔ یہ سارے جو آج عمران خان صاحب کی ٹیم ھے پہلے یہی نواز شریف صاحب، زرداری صاحب کی بھی ٹیم تھی افسوس یہ ھے کی ڈاکو وھی ھیں بس ھر دفعہ کپتان بدل جاتا ھے۔
ھر حکومت آدھے میڈیا کی دوست ھوتی ھے اور آدھے میڈیا کی دشمن، کوئی طریقہ کار بنایا جائے کہ بغیر تصدیق کے پوسٹ لگانے پر اگر سزا نہ بھی ھو پر باز پرس ضرور ھونی چاھیئے۔ ھر خبر کا کوئی نہ کوئی منبع ضرور ھوتا ھے ۔ اس سے پوچھا جائے اس خبر کا ثبوت کیا ھے۔ ایک گانا یاد آرھا ھے کہ میرے اپنے میرے ھونے کی گواھی مانگیں۔ سوشل میڈیا دھشتگردی کو بند ھونا چاھیئے، اس کے کچھ تو اصول و ضوابط ھونے چاھیئں، ورنہ خواب آور گولیاں اور زیادہ بنانی شروع کردیں کیونکہ یہ سوشل میڈیا کسی کو سونے نہیں دیتا۔ اس کا نام بدل کر اگر جھوٹا میڈیا رکھ دیں تو بہتر ھے کیونکہ سوشل میڈیا اب یہ رھا نہیں۔ ھم اس دین سے تعلق رکھتے ھیں جس میں برا گمان بھی گناہ ھے اور ھم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رھے ھیں۔ بس ایسے ھی پوسٹ لگادی تھی شغل میں۔ کتنی سادہ سی دلیل ھے۔

Prev خیال کیجئے
Next گھر میں رھیئے، سلامت رھیئے

Comments are closed.