کچھ تصاویر

کچھ تصاویر
تحریر محمد اظہر حفیظ

تصاویر بناتے عمر گزر گئی پر کچھ تصاویر کی حسرت لئے زندگی ٹھہر سی گئی ھے۔ نہ ویسی تصاویر ملتی ھیں اور نہ ھی ویسی تصاویر بنتی ھیں،
مجھ سے تو آج تک وہ مونوگرام ھی نہیں بن سکا جو تصویر پر لگاتے ھیں اس لئے نام لکھنا بھی چھوڑ دیا،
مجھے شک سا گزرا کہ تصویر پر میرا نام لکھنے اور مونوگرام لگانے سے تصویر دیکھنے کے قابل نہیں رھتی اور تصویر ایک ضروری چیز ھے نہ کہ اس پر لگی آڑھی ترچھی نام کی لکیریں،
میری اور میرے کیمرے کی دن بہ دن نظر کمزور ھوتی جارھی ھے نہ ھی مجھے اتنا شارپ نظر آتا ھے اور نہ ھی میرے کیمرے کو، پھر بھلا کیا کیا جاسکتا ھے، پہلے کچھ تصاویر کو دیکھ کر سیکھنے کی کوشش کرتا تھا اب انکو بھولنے کی کوشش کرتا ھوں، کہ کہیں یہ سیکھ ھی نہ جاوں،
مختلف تصاویر کی تلاش میں قریہ قریہ گھوما پر جو دیکھایا گیا یا وہ ملا نہیں یا پھر بلکل ویسا نہیں تھا، نہ تو مجھے روشن آنکھوں والے بابے نظر آئے اور نہ ھی صاف ستھرے پس منظر کے ساتھ پرندے، پرندوں کی تصاویر کے ماھر کہتے ھیں بس پرندہ وہ ھے جو آزاد ھو، پنجرے اور جنگلے میں بند نہ ھو، باقی ھم اسکو جہاں مرضی بٹھا لیں پس منظر بدل لیں یا درست کرلیں وھی بہترین تصاویر ھیں، ایک دوست فوٹوگرافر کہتے تھے کہ پرندوں کی تصویر بناتے ھوئے میں قینچی ساتھ رکھتا ھوں پرندوں کے آگے اور پیچھے فالتو ٹہنیوں اور پتوں کو کاٹ دیتا ھوں تصویر خوبصورت اور جاذب نظر ھوجاتی ھے، مجھے پتے اور ٹہنیاں کاٹنا پسند نہیں اس لیئے پرندوں کی مناسب تصاویر بھی نہیں بنا سکا، کوئی بات نہیں ایسا تو ھوتا ھے ایسے کاموں میں،
ایک ھندوستانی فلم دیکھ رھا تھا گانا آیا کہ میں نکلا گڈی لے کے، سوچا آئیڈیا اچھا اور نکل پڑا گڈی لے کے اسلام آباد سے خنجراب تک گیا نہ وہ پہاڑ نظر آئے نہ وہ درخت نظر آئے نہ وہ سرخ و زرد رنگ نظر آئے بس ایک بات حقیقت تھی پیٹرول تقریبا بیس ھزار کا ھی لگ جاتا ھے وہ لگ گیا چلو اچھا ھے کچھ تو سچ نکلا اس سفر میں،
پھر پاکستان کا چپہ چپہ چھان مارا کوئی بھی وہ والی تصویر نہیں ملی جو ڈھونڈنے نکلا تھا، پھر بڑوں کی کہاوت یاد آئی کہ گمی ھوئی چیز کو وھاں تلاش کرتے ھیں جہاں گم ھوئی ھو، پھر بھی نہیں ملی، کچھ تصاویر کی تلاش میں ھوں جو انٹرنیٹ پر تو نظر آتی ھیں پرحقیقت میں انکا وجود کہیں نہیں ھے،
ریگستان، چولستان، نخلستان، وزیرستان، بلتستان، پرستان، قبرستان سب چھان مارے پر جو تصاویر گم ھوئی ھیں وہ نہیں مل رھیں، پڑھا تھا کہ تصاویر صبح یا شام کو بنانی چاھیں تاکہ سائے اور روشنی مناسب نظر آئیں، پر اللہ جس کو اس کے فن کی معراج عطا دیں اس کے کیا کہنے وہ تصویر جس وقت مرضی بنائیں سائے نہیں آتے، موسم وہ ساتھ لیکر چلتے ھیں، سورج ان کا تابعدار ھے، جو چاھیئے ھو ایڈجسٹ کرلیتے ھیں جیسے کہ ھیٹ اور کول والے ایئرکنڈیشنر جب چاھو ٹھنڈا، جب چاھو گرم،
دوستو میں بھی ایک عجیب و غریب شخص ھوں چھوٹی عمر میں پہلےاپنا گاوں گم کردیا اور اب شہر کی تلاش میں ھوں،
شاید میرے نصیب میں نہیں ھیں کچھ تصاویر، پرندوں کی، گاوں کی، شہروں کی، پہاڑوں کی، ریگستانوں کی، چولستانوں کی، آسمانوں کی، محفلوں کی، ماہ جبینوں کی، حسینوں کی، خزاں کی، بہار کی، آبگینوں کی، چشموں کی، آبشاروں کی، دریاوں کی، سمندروں کی، کوھساروں کی، گلیشیروں کی، مہتاب کی، آفتاب کی، کہکشاں کی، وعدوں کی اور اعتبارکی۔
شاید کچھ سچی تصاویر جھوٹ ھیں، وہ بنائیں ضرور گئیں ھیں پر کیمرے سے نہیں کمپیوٹر سے، بنانے والا بطور فوٹوگرافر اس کے پیچھے نہیں کھڑا ھوتا بلکہ سامنے بیٹھ کر اس ڈیزائن کی تشکیل اور تکمیل کرتا ھے، یہ ممکن ھے تصویر نہ کہلا سکے پر ھاں اس کو تصویر بالجبر ضرور کہہ سکتے ھیں، آپ کا میرے خیالات سے متفق ھونا ضروری نہیں، جس طرح میں کچھ تصاویر کو تصویر کہنے پر متفق نہیں ھوں۔

چل بُلھیا چل اوتھے چلیے
جتھے سارے انھے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے
نہ کوئی سانوں مَنّے

Prev سرکاری نوکری
Next گھر پر رھیئے اور لاھور دیکھیے

Comments are closed.