یار صاحب

یار صاحب

تحریر محمد اظہر حفیظ

میں نے زندگی کے 45 سال والد صاحب کے ساتھ گزارے، یقینا وھی زندگی کے بہترین سال ھیں، میرے والد صاحب مرحوم شدید غصے والی شخصیت کے مالک تھے، لیکن انھیں احساس بھی فورا ھوجاتا تھا کہ غلط ھوگیا فورا ساتھ لیجا کر سمجھانا، پارٹی کرنا انکی شخصیت کا دوسرا رخ تھا، یار صاحب پڑھائی تے توجہ دیا کر وقت ضائع نہ کیا کر، یار صاحب مجھے غصہ آجاتا ھے، تو کام بھی تو سب ایسے کرتا ھے، یار صاحب ماں نوں تنگ نہ کریا کر، یار صاحب بیٹیوں سے ناراض نہیں ھوتے، یار صاحب چل اب انکو معاف کردے، یار صاحب اپنی بہن کا خیال رکھا کر، یار صاحب دونوں بھائی ساتھ ساتھ رھنا، یار صاحب برداشت کریا کر، یار صاحب اتنی جلدی ناراض نہ ھوا کر، چل میرا پتر روٹی کھا لے، یار صاحب آتے ھوئے جلیبیاں تے سموسے لیتے آنا، یار صاحب تیری اے گڈی بڑی ودھیا اے، ھمیشہ مجھے سمجھاتے رھتے، والد صاحب کی عادت تھی ھمیشہ پیسے انگیٹھی پر رکھتے تھے اب سوچتا ھوں کہ ھمیں چوری کی عادت ھی نہیں پڑی،کیسے کھلے پیسے وہ سامنے رکھتے کہ ھمارے دل میں کبھی آیا ھی نہیں کہ اٹھا لیں، میں بھی اپنا پرس اسی طرح انگیٹھی پر رکھتا ھوں، اکثر وہ اسے کھول کر دیکھتے پیسے کم ھونے کی صورت میں پانچ یا دس ھزار خود ھی رکھ دیتے اور کبھی بتایا بھی نہیں، جب پرس نکالتا کسی ادائیگی کیلئے تو پیسے دیکھ کر کبھی ھنس پڑتا اور کبھی رو پڑتا، میرے والد جیسا والد بننا ایک مشکل ھی نہیں ناممکن کام ھے، میں بھی پچھلے اکیس سال سے ویسا بننے کی کوشش تو کر رھا ھوں پر بن نہیں پایا، پہلے میں یار صاحب تھا اب میں یار بابا ھوں مجھے لگتا ھے میرے والد کی روح شاید میری چاروں بیٹیوں میں آگئی ھے، جب بھی بات شروع کرتی ھیں یار بابا ھر وقت غصے میں کیوں رھتے ھیں، یار بابا ھمیں بھی وقت دیا کریں، یار بابا پھوپھو کو فون کر لیں پوچھ رھی تھیں، یار بابا آتے ھوئے جلیبیاں اور سموسے لے آنا، یار بابا کہیں باھر چلتے ھیں، میری زیادہ عمر تو اپنوں سے یاری نبھانے میں ھی گزر گئی، اپنے والد صاحب کا میں یار صاحب اور بیٹیوں کا یار بابا، زندگی گزر گئی ھے، مجھے بہت سے رشتوں نے زبردستی احساس دلایا کی یاری ان سے ھی ھے باقی سب فنکاری ھے ضرورتیں ھیں، جو کام میں زندگی بھر نہ کرسکا اب سیکھ رھا ھوں، امید ھے جلد سیکھ جاوں گا، میری صحت بہت سے کاموں کی اجازت نہیں دیتی پر میرے سفید بال اور سفید داڑھی میرا کافی ساتھ دیتی ھے، خریداری کے بعد اکثر آواز آتی ھے جاو انکل کی گاڑی میں سامان رکھ آو، اور یوں نظام چل رھا ھے الحمدللہ، بزرگی کے فوائد اب سامنے آنا شروع ہو گئے ھیں، میرا سفر لمبا ھے اور میں اکیلا ڈرائیور ھوں باقی پانچ سواریاں ھیں، دیکھو کب تک گاڑی چلتی ھے، سب اپنی مصروفیات میں مصروف ھیں اور میں بلکل فارغ، میرا بھی اب کسی سے کچھ کہنے کو دل نہیں کرتا، اب تو شکوہ بھی نہیں کرتا، نہ اللہ سے اور نہ اس کے بندوں سے، اب سوچا ھے باقی زندگی کسی بھی ناراض کو نہیں منانا، کوئی ناراض ھے تو رھے، میں تو ناراض نہیں ھوں، یہاں تو کسی کو آپ اپنی آنکھیں بھی دے دو تو اسے آپ ھی نظر نہیں آتے، باقی سب نظر آتا ھے، میرے والد صاحب سب کے کام آتے تھے پر میں کچھ جلدی تھک گیا ھوں، میں تو شاید کبھی اپنے کام بھی نہیں آیا، میں جن کے ساتھ ھمیشہ حساب کے بغیر چلا، وہ حساب کتاب لکھتے رھے، نہ تو مجھے دعا چاھیئے اور نہ ھی ازالہ چاھیئے، بس مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں شاید زندگی کے چند دن اور آسانی کے ساتھ گزار سکوں، شکریہ دنیا میں سب سوال تفریق کے ھیں انکو جمع کرنے کی کوشش مت کیجئے، جواب تفریق میں ھی آئے گا،
 

 

Prev بجٹ
Next دیوانے

Comments are closed.