استاد بی کے بنگش صاحب
استاد بی کے بنگش صاحب
تحریر محمد اظہر حفیظ
فوٹوگرافی کا شوق تھا دن رات فوٹوگرافی کرتے تھے نیشنل کالج آف آرٹس لاھور شروع کے دن تھے محترم استاد جاوید صدیقی صاحب، عبدالقیوم صاحب، اظہر شیخ صاحب اور عمران بابر صاحب کا بہت نام تھا۔ فیشن، لینڈ سکیپ، پروڈکٹ فوٹوگرافی ان سب کے یہ ماھرین تھے، فیشن فوٹوگرافی کی طرف آنے کا سوچا خبریں اخبار آرھا تھا اس سے منسلک ھوگئے، فرنٹئیر پوسٹ کی ساری ٹیم دی نیوز چلی گئی اور مجھے استاد راحت ڈار صاحب کی جگہ بطور فیچر فوٹوگرافر کام کرنے کا موقع ملا اس میں مرحوم اسد جعفر بھائی اور خالد حسین بھائی کا بھی بہت حصہ تھا ۔ کام کرنے والے بہت تھے لیکن جو عزت اظہر جعفری صاحب اور راحت ڈار صاحب کی تھی وہ کم دوستوں کے حصے میں آئی یہ مختلف اور اچھا کام کرتے تھے خواھش تھی کہ کبھی ان جیسا کام کیا جا سکے، اور آج تک کوشش جاری ھے، میاں خورشید بھائی فوٹوجرنلزم میں میرے پہلے استاد ھیں، جو میرے کزن بھی ھیں ان کے گھر گیا تو انھوں نے فلیش لائٹ کا استعمال، اس کو باونس کیسے کرتے ھیں، سایہ کیسے ختم کرتے ھیں، سب سکھایا۔ وھیں سے فوٹوجرنلزم کا آغاز ھوگیا۔ ھر اچھا فوٹوگرافر میرا آئیڈیل تھا۔ اظہر جعفری صاحب، راحت ڈار صاحب، عبدالقیوم صاحب یہ سب میرے لئے مشعل راہ تھے راحت ڈار صاحب سے کبھی کبھی تنویر شہزاد صاحب، سعید بنگش صاحب اور بی کے بنگش صاحب کا نام سننے کو ملتا تھا۔ لیکن میری ان سے شناسائی نہیں تھی۔
نیشنل کالج آف آرٹس سے پاس ھوا اور پتہ چلا کہ تنویر شہزاد صاحب فرنٹیئر پوسٹ چھوڑ کر دی نیوز میں چلے گئے ھیں اور میری ٹرانسفر اسلام آباد فرنٹیئر پوسٹ ھوگئی، 6 مارچ 1994 سپریم کورٹ میں شیرپاؤ صاحب کا کیس لگا ھوا تھا یہ پہلا کام تھا جو میں کور کرنے پہنچا اور وھاں پہلی دفعہ اسلام آباد فوٹوگرافی کے اساتذہ کرام سے ملاقات ھوئی، میاں خورشید صاحب نے سب سے ملوایا، یہ میرا بھائی ھے اظہر، یہ تنویر شہزاد صاحب ھیں، یہ سعید بنگش صاحب ھیں اور یہ بی کے بنگش صاحب ھیں۔ جن کو سنتا اور سوچتا تھا اس گلدستے کو دیکھ بھی لیا، واہ جی واہ کیا سادہ اور شاندار لوگ۔ فوٹوگرافر تو اور بھی بہت سے وھاں تھے پر میری حسرت یہی لوگ تھے، کچھ عرصہ کام کرکے میں ایڈورٹائزنگ میں آگیا اوران دوستوں سے رابطے کم ھوگئے پھر میں 1998 میں خبریں کے میگزین “اور” میں آگیا پھر روزنامہ کائنات اخبار اور اس کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن میں نوکری مل گئی لیکن ان میں سے تین عظیم لوگوں سے مسلسل رابطہ ھے میاں خورشید صاحب ، تنویر شہزاد صاحب، بی کے بنگش صاحب ۔
میاں خورشید صاحب اور تنویر شہزاد صاحب کی چند تصاویر یاد ھیں لیکن بی کے بنگش صاحب کی سب تصاویر مجھے حفظ ھیں۔ اتنا مختلف کام کرنا اگر کسی ایک فوٹوگرافر کے بس کا کام ھے تو پھر وہ بی کے بنگش صاحب کے علاوہ اور کوئی نہیں ھوسکتا،
وہ عید کی نماز میں کھڑا ایک بچہ ھو، برقعہ پوش خواتین کے ھاتھ میں بچہ ھو، عینک پہنے بندر ھو، یا پھر افغان خواتین ھوں۔ افغانستان ھو یا کوئی ملک، ھر اچھی تصویر پر آپ کو بی کے بنگش صاحب کا نام ھی نظر آئے گا، جتنے وہ شاندار فوٹوگرافر ھیں اس سے کہیں زیادہ شاندار انسان بھی ھیں، میری ھمیشہ حوصلہ افزائی کی ۔ مجھے جب بھی موقعہ ملا کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کی، فوٹوگرافی کی دنیا میں وہ ایک غیر متنازعہ انسان ھیں، مجھ پر ھمیشہ شفقت فرماتے ھیں، عاجزی اور انکساری سیکھنی ھو تو شاید ھی ان سے بہتر درسگاہ پاکستان میں ھو، ایک دن فون آیا، فون پر نام آرھا تھا بی کے صاحب، فون سنا تو آواز آئی۔ جی اظہر کل کیا مصروفیت ھے بھائی جان حکم، یار نسٹ یونیورسٹی کل جانا ھے میں تمھیں لے لوں گا فوٹوگرافی کا ایک مقابلہ ھے تم جج ھو، بی کے بھائی میری کیا حیثیت آپ کے سامنے، جی اظہر پھر کل میں تمھیں کہاں سے لوں۔ جی میں حاضر ھوجاوں گا، یونیورسٹی پہنچا بی کے بھائی کی بیٹی وھاں طالبہ تھیں اب ماشااللہ سکالرشپ پر باھر تعلیم حاصل کر رھی ھیں، سب بچوں کو اکٹھا کیا اور فرمانے لگے بھئی آپ لوگوں نے تکلف کیا جو مجھے بلایا یہ ھیں استاد محمد اظہر حفیظ صاحب جو آپ کے کام کے فوٹوگرافر ھیں، میری تو آنکھیں بھیگ گئیں بی کے صاحب کے الفاظ سن کر، اب ھر ایک سے ملا رھے ھیں جی انکا کام دیکھنے والا ھے اتنی شفقت اور حوصلہ افزائی کا کبھی سوچا بھی نہ تھا، پھر تو بی کے بنگش صاحب سے محبت بڑھتی چلی گئی، میرے والد صاحب کے انتقال پر کئی دن بہانے بہانے سے آتے تھے پیار کرتے حوصلہ دیتے، یار تنویر شہزاد آ رھا تھا میں نے کہا چلو میں تمھیں راستہ بتاتا ھوں، اسی طرح کچھ اور دوستوں کے ساتھ بھی آئے، یہ دل جوئی کا طریقہ پہلی دفعہ کسی ھمدرد انسان میں دیکھا، سادہ لباس، سادہ گفتگو،مسکراتا چہرہ، سفید چھوٹی داڑھی، احترام سے بھرپور، بہترین تصاویر بناتا اگر کوئی شخص نظر آئے تو سمجھ لیں یہ بی کے بنگش صاحب ھی ھیں اے پی کے ساتھ وابستہ رھے اور کل ریٹائر ھوگئے،میں نیشنل پریس کلب کم ھی جاتا ھوں ساتھی دوستوں کے ساتھ بی کے بنگش صاحب کی تصویر دیکھ کر محسوس ھوا مجھے بھی وھاں ھونا چاھیئے تھا،
میں نہیں سمجھتا کہ آرٹسٹ کبھی ریٹائر ھوسکتا ھے، اور وہ بھی بی کے بنگش صاحب جیسا فوٹوگرافر جو کہ ایک یونیورسٹی ھے فوٹوگرافی کی،
ان کے کام پر ریسرچ ھونی چاھیئے، اور ان کے کام اور تجربات پر کتب چھپنی چاھیئں، دعا کریں میرے اللہ مجھے کوئی ایک تصویر عنایت کردیں جو استاد کے کام جیسی ھو میں سمجھوں گا میں نے حق ادا کردیا، بی کے بنگش بھائی سلامت رھیں خوش رھیں آمین اللہ تعالی صحت کے ساتھ ایمان والی زندگی دیں آمین۔
azhar
July 7, 2020
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020