اللہ اکبر

اللہ اکبر

تحریر محمد اظہر حفیظ

انسان کیا کیا سوچتا ھے کیا کیا منصوبے بناتا ھے پر ھوتا وھی ھے جو میرا رب چاھتا ھے، سال 2020 ختم ھونے کو آگیا، سب نے منصوبہ بندی کی کہ نئے سال میں کیا کیا کرنا ھے، اور ھم نے زندگی کو نئے انداز میں سمجھنا شروع کردیا، میرے اللہ ایسے ھی سمجھانا چاھتے ھیں، اس ایک سال میں طرح طرح کے درد چکھے اور شکر الحمد للہ، میرے رب نے قابل برداشت درد دیئے، نو مہینے اس درد کو برداشت کرتے رھے کہ شاید کوئی رزلٹ آجائے پر یہ کوئی اور ھی درد تھا، سمجھ نہیں آیا، جس دن درد نہیں ھوا وہ دن انتظار میں ھی گزر گیا کہ آج درد کیوں نہیں ھوا، روزے بھی آدھے ھی رکھے، اور سارا وقت لیٹ کر ھی گزارا، جیسے ھی درد کم ھوا کبھی ھرن مینار، کبھی مینار پاکستان، کبھی جہانگیر کا مقبرہ ، کبھی شالامار باغ اور کبھی لائلپور دیکھنے پہنچ گیا، درد کو یہ درد تھا کہ یہ مجھے محسوس ھی نہیں کرتا اور مجھے اپنی اداکاری کا زعم تھا کہ درد کو پتہ نہیں چلنے دینا کہ مجھ پر کیا گزر رھی ھے، پھر بھائی کرونا آگیا اور یوں دسواں مہینہ بھی پورا ھوگیا، جانا تھا اپریل میں بہار دیکھنے شمالی علاقہ جات وہ پہلے درد کی نظر ھوگیے اور خزاں کرونا کی نظر ھوگئی، مجھے اپنے ڈائریکٹر فخر حمید مرحوم بہت یاد آئے، بہت ھی مثبت ذھن کے انسان تھے اللہ جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین، جب بھی میں بیمار ھوتا تھا تو کہتے تھے کہیں نہ کہیں سیر و تفریح پر گیا ھوگا، وقت گزرتا گیا، اور یہ وقت آگیا کہ نہ کوئی پوچھنے والا ھے اور نہ کوئی قیاس آرائی کرنے والا، لوگ بڑے ظالم نے پچھلے سال کی تصاویر اسلام آباد کی شیئر کرتے ہیں اور لکھتے ھیں خزاں کی آمد آمد ھے اور میں بہت ھمت کرکے آج کیمرہ ساتھ لیکر گیا پر ایک بھی پودا سرخ یا زرد نظر نہیں آیا، شکر کیا ورنہ کرونا کے بعد کیمرہ اٹھانے کیلئے بھی سوچنا پڑتا ھے، سب لوگ سکردو اور ھنزہ کا رخ کر رھے ھیں اور میں بستر پر لیٹا رات کے اس پہر اپنے رب کی بڑھائی بیان کر رھا ھوں، جس نے مجھے بہت سی چیزیں سمجھنے میں مدد دی، میری ساری زندگی مشاہدے میں گزر گئی پر جو اس سال کا مشاہدہ ھے یہ شاید سب سے اعلی ھے، اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا، میرے ھر طرف میرے اپنے ھیں ، میری بیوی، میرے بچے، میرے عزیز رشتہ دار، دوست احباب، پر میں ایک طرف کھڑا ھوکر ان سب کو اور ان کےخلوص کو دیکھتا رھتا ھوں شکرالحمدللہ، کچھ میرے سے پیار کرتے ھیں، کچھ مجھ سے میری لا پروائیوں پر جھگڑا کرتے ھیں، اور کچھ خاموش ھیں، میں اس صورتحال کا مزا لے رھا ھوں اور مجھے سب ھی اچھے لگ رھے ھیں، اللہ ان سب کو سلامت رکھے، خوش رکھے آمین ، بچے معصوم ھوتے ھیں بابا جی نہاری بنائیں جی بیٹا ھفتہ والے دن بنا دی تھک بھی گیا پر سب کو ساتھ بیٹھے دیکھ کر خوش بھی ھوا میری بیٹیاں، بھتیجیاں ھم سب نے بہت دنوں بعد ساتھ بیٹھ کرکھانا کھایا، اور کرونا سے آزادی کا لطف اٹھایا، زندگی میں پہلی دفعہ ھم کسی کام کے منفی ھونے کا جشن منا رھے تھے، میں نے سب کے پیار کو مختلف زاویوں سے محسوس کیا اور شکریہ ادا کیا، کچھ اس کو طنز سمجھ رھے تھے اور کچھ مذاق،
الحمدللہ دردیں تو ابھی ساتھ ساتھ ھی ھیں پر میں زندگی کے ایک نئے راستے پر ھوں سفر کررھا ھوں پر منزل کا تعین نہیں ھے، بس پڑھ رھا ھوں اللہ اکبر، اللہ اکبر جدھر وہ چاھے گا لے جائے گا اور میں سر جھکائے چلتا چلا جاوں گا، اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کے منہ سے فرعونیت کے کلمات سن کر کانپ جاتا ھوں، “میں ان کو نہیں چھوڑوں گا ” تم کون ھوتے ھو کسی کو پکڑنے اور چھوڑنے والے بھلا اللہ سے بہتر کس کی پکڑ ھوسکتی ھے، بس اللہ تعالٰی ھماری کوتاھیوں کو درگزر فرمائیں آمین بے شک وہ ھی سب سے بڑے اور طاقت والے ھیں، اللہ اکبر، اللہ اکبر
 

 

Prev صحت
Next تجاوزات

Comments are closed.