امید
امید
تحریر محمد اظہر حفیظ
زندہ انسان کبھی بھی امید کا دامن نہیں چھوڑتا اور کچھ چلتی پھرتی لاشیں ناامیدی کا ٹھیکہ اٹھائے جگہ جگہ اشتہار لگاتی پھرتیں ھیں ۔
ھر روز سورج کا طلوع ھونا، سحر کا ھونا، پرندوں کا چہچہانا، پھولوں کا کھلنا، بچوں کا پیدا ھونا، دعا مانگنا، ھنسنا، رونا، سفر کرنا، آرام کرنا، علا ج کروانا، اولاد کا ھونا، شعر کہنا، گانا، مصوری کرنا، تلاوت کرنا، سجدہ کرنا، بارش کا ھونا، صحتمند ھونا، پڑھنا، چلنا، دیکھنا، سونگھنا، چکھنا، کھانا، پینا سب امید کے ھی مختلف پہلو ھیں۔
کچھ لوگوں کو یہ امید نظر آتی ھے اور کچھ کو ناامیدی،
کچھ لوگوں کی بحث غرناطہ سے شروع ھوکر ایران عراق سے ھوتی ھوئی مکہ اور مدینہ منورہ تک چلی جاتی ھے، کچھ لوگ اردو کو رائج کرنا چاھتے ھیں اور کچھ انگریزی کے بعد چائنیز زبان سیکھ کر امید رکھتے ھیں کہ اب دنیا بدل جائے گی۔
مجھے پر امید لوگ اچھے لگتے ھیں چاھے وہ کچھ لمحوں کا بچہ ھو یا پھر بوڑھے بزرگ۔
سفر کرنا، تصویر بنانا میرا مشغلہ ھے۔ مجھے محسوس ھوتا ھے کہ سفر کرنا آپ کو آگے بڑھنا سکھاتا ھے اور واپس آنا بھی سکھاتا ھے ، تصویر بنانا آپ کو پرامید لمحوں کو محفوظ بنانا سکھاتا ھے، یہ میری انفرادی سوچ ھے ممکن ھے آپ مجھ سے اتفاق نہ کریں، میری کوشش ھوتی ھے کہ کوئی بھی نا امیدی والی تصویر نہ بنائی جائے اور نہ ھی کوئی ایسا سفر کیا جائے جو نا امیدی کا محور ھو ۔
شاید میں دنیا کا سب سے بڑا گنہگار انسان ھوں ھمیشہ استغفار کرتا ھوں اور بخشش کا بھی سب سے بڑا طلبگار ھوں۔
مجھے معافی مانگنے میں کوئی عار محسوس نہیں ھوتی چاھے غلطی میری ھو یا نا ھو، اور یہ میری کمزوری نہیں طاقت بن چکی ھے، الحمدللہ ۔
انسانوں سے معافی مانگنے کی عادت نے میرے لئے بہت آسانی کردی ھے۔ میں بلا جھجک اپنے رب سے اپنے کئے اور نہ کئے دونوں کی معافی مانگتا رھتا ھوں، کوشش کرتا ھوں کہ اللہ کے فضل سے سب کیلئے آسانیاں کروں باقی جیسے میرا اللہ چاھے،
صبح پہلی آواز اذان فجر کی آتی ھے میرا رب بلاتا ھے آجاو فلاح کی طرف آجاو صلاح کی کی طرف، بے شک نماز نیند سے بہتر ھے، جن کو بہتر سمجھ آتی ھے وہ سجدے میں چلے جاتے ھیں اور باقی سوئے رھتے ھیں۔
دنیا کا نظام بھی ایک امید ھے ھم الیکشن کرواتے ھیں کبھی چور اور کبھی کھلاڑی چن لیتے ھیں۔ ساتھ ساتھ اپنے بچے فوج میں بھی بھرتی کرواتے ھیں کہ یہ سسٹم نہ چلا تو فوج تو ھے ھی نا۔ سب امید کے سلسلے ھیں۔ صرف اسلام آباد میں کئی سو قسم کے پرندے پائے جاتے ھیں سب کے رنگ مختلف، سائز مختلف، آوازیں مختلف، اڑان مختلف، خوراک مختلف، آنکھ مختلف، پر مختلف، انڈے مختلف، گھونسلے مختلف، دیکھتے جاو اپنے رب کو سجدے کرتے جاو، اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاو گے ،
پودوں کو دیکھیں کتنے رنگ کے پھول، پھل، پتے، شکلیں۔
مزیدار بات یہ ھے کہ دور کوئی بھی ھو فوجی، سیاسی یا مکس ان پودوں پر کچھ اثر نہیں پڑتا،
بس پریشان ھم ھیں اور ناامید بھی ھم ھی،
مارگلہ روڈ پر اور اسلام آباد میں مختلف جگہوں پر املتاس کے پودے ھیں ھر دور میں ھر سال اس کے پھول پیلے ھی ھوتے ھیں اور اتنے ھی خوبصورت وہ مارشل لاء ھو یا پھر جمہوریت ان میں کوئی فرق نہیں پڑتا،
پاکستان ایک زرعی ملک ھے اور محکمہ زراعت یہاں کا سب سے طاقتور ترین محکمہ، الحمدللہ اب محکمہ زراعت ترقی کرتا کرتا باقی محکموں کوبھی ساتھ شامل کرتا جا رھا ھے، زراعت کے ساتھ ساتھ اب سیکورٹی، ھاوسنگ، مواصلات، ترسیلات، شاپنگ مالز، شادی ھالز، نشرواشاعت، حکومتی امور، سیاسی امور، سیمنٹ، پانی، بجلی، صحت، تعلیم، گیس، آئل، بینکاری، عدالتی نظام، موٹرویز کے بعد اب سیروسیاحت بھی جلد محکمہ زراعت کے حوالے کردی جائے گی۔
جب کوئی ایک وزارت ھی سب امور دیکھے تو اس کے اپنے کام متاثر ھونے کا خدشہ ھوتا ھے، ٹڈی دل آج کل فصلوں باغات پر شدید حملہ آور ھے محکمہ زراعت کو چاھیئے کہ اس پر توجہ دے یہ نہ ھو کہ باقی سب محکمے تو ٹھیک چلیں اور زراعت امید چھوڑ جائے۔ بی آر بی نہر کا ھماری زراعت اور سیکورٹی دونوں میں بہت بڑا عمل دخل ھے، پر نہر کے پانی کو نہر میں ھی رھنا چاھیئے، اگر کنارہ توڑ کر شہروں اور دیہاتوں کا رخ کرے گا تو سیلاب آجائے گا پھرنہ زراعت ھوسکے گی اور شاید نہ ھی سیکورٹی۔ ریاست مدینہ کا نظام رائج ھو یہ ھم سب کا خواب ھے اور اس کو پورا کرنا حکومت وقت کا کام ھے نہ کہ کسی ایک محکمے کی خواھش۔
اب ھر عوامی جگہ پر کچھ فٹ کے فاصلے سے گول دائرے لگے ھوئے ھیں کرونا سے بچاو کیلئے، مجھے قوی امید ھے اگر ھم سب اپنے اپنے دائروں میں رھیں تو انفیکشن سے بھی بچ جائیں گے اور نظام کائنات بھی متاثر نہیں ھوگا، صرف وزارت سائینس و ٹیکنالوجی کے وزیر پر ھی اعتراض کیوں جب بھی وہ کسی دوسرے کے دائرے یا محکمے میں جاتے ھیں تو اعتراض شروع ھوجاتا ھے۔ اگر آپ ریاست مدینہ کا نظام بنانے کا سوچ رھے ھیں تو پھر سب کو ان کے دائروں تک پابند کیجئے، یا پھر اسلامی مملکت کی بجائے زرعی مملکت کا اعلان کردیجئے، امید پر دنیا قائم ھے، امید تو کیجئے۔ پہلا قدم لیجئے ھم سب آپکے ساتھ ھیں۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔
azhar
July 7, 2020
Blogs / Uncategorized
Comments are closed.
Copyright 2020