بائیکاٹ
بائیکاٹ
تحریر محمد اظہر حفیظ
سارے پاکستان میں پھلوں سے بائیکاٹ کی کمپئین چل رہی ہے۔ اور میں اور میری فیملی بھی اس بائیکاٹ کا حصہ ہیں ۔ پہلا رمضان ہے جس میں افطاری پر فروٹ چارٹ یا پھل نام کی کوئی چیز استعمال نہیں کی جارہی۔ بائیکاٹ بہت کامیابی سے جاری ہے ۔ کل گلی میں سبزی اور پھل والا صرف سبزی لایا تھا ۔ بیگم صاحبہ نے پوچھا کہ پھل کیوں نہیں لائے کہنے لگا باجی بہت مہنگے مل رہے تھے کون خریدے گا اس لیے نہیں لایا۔ مجھے بائیکاٹ پر عوام کی محنت کامیاب ہوتی نظر آئی۔ آج پرندوں کا دانہ لینے اصغر مال سکیم گیا راستے میں جتنے بھی پھل فروش نظر آئے اکیلے ہی کھڑے تھے۔ پر وہ شکل سے گراں فروش نظر نہیں آرہے تھے۔ میرے ذہن میں آیا کہ پیسہ تو ذخیرہ اندوز اور آڑھتی کما رہے ہیں ۔ یہ جو غریب ریڑھی بان مہنگے داموں پھل خرید کر لاتا ہے ہمارے بائیکاٹ سے اس کا تو بے تحاشہ نقصان ہورہا ہے۔ امیر کا مال تو کولڈ سٹوریج میں پڑا ہے وہ کونسا خراب ہوگا۔ پر اس کا تو کام ہی اجڑجائے گا۔ میری آپ سب سے درخواست ہے اس غریب کیلئے بھی کوئی حل سوچیں۔
مجھے یاد ہے کچھ سال پہلے رمضان میں ہی ہمارے پاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھی خالد کا بھائی ایکسیڈینٹ میں فوت ہوگیا تھا غالبا دوسرا روزہ تھا میں اور وسیم صاحب اس کے گھر افسوس کرکے واپس آرہے تھے مغرب سے پہلے اسلام آباد ایکسپریس وے لوڈشیڈنگ کے خلاف ہڑتال والوں نے بند کی ہوئی تھی۔ مختلف گاڑیوں سے مختلف سلوک ہورہا تھا۔ ایک سوزرکی ڈبہ چوڑیوں کے ڈبوں سے بھرا ہوا تھا شاید عید کی تیاری کیلئے وہ آدمی خرید کر لے جارہا تھا۔ اس پر کچھ لڑکوں نے حملہ کیا اور چوڑیوں کے ڈبے نکال کر چوڑیاں توڑ رہے تھے مختلف گاڑیوں میں پھینک رہے تھے ۔ اور وہ بندہ ہاتھ جوڑ رہا تھا منتیں کر رہا تھا کہ میرا نقصان نہ کریں۔ پر جوان قہقہے لگا رہے تھے اور کوئی اس کی حالت پر ترس نہیں کھا رہا تھا ۔ مجھے اندازہ نہیں کہ وہ کیا کیا سوچ کر اپنے سٹال کیلئے چوڑیاں خرید کر لایا ہوگا۔ کہ بیچ کر اپنی فیملی کے کون کون سے کام کرے گا کس کس کا قرضہ اتارے گا۔ مجھ سے اس کی بے بسی دیکھی نہ گئی اور میں بھی اونچی آواز میں رونے لگ گیا۔ کیونکہ میں اس کی مدد نہیں کرسکتا تھا۔ اگلے دن پھر ویسے ہی لوڈ شیڈنگ تھی پر اس چوڑیوں والے کیلئے تو کئی ماہ تک لوڈ شیڈنگ ہی رہی ہوگی۔
اور سڑک بلاک کرنے والوں کیلئے کامیابی کی ایک کہانی کیسے ایک غریب کو نقصان پہنچایا۔ کوئی دوست تحقیق کرے کہ اس بائیکاٹ کا نقصان ذخیرہ اندوزکو ہورہا ہے یا پھر جو ریڑھی بان ہےصرف وہ تباہ ہورہا ہے کیونکہ اس کی قوت خرید صرف ایک دفعہ کی ہے اس کا پھل واپس نہیں ہوسکتا گل سڑ جائے گا۔ اور ساتھ پھل فروشوں کی ایک نسل بھی ختم ہوجائے گی جو ریڑھی بان والی ہے۔ 19 مارچ کو فیصل آباد میں خربوزہ 100 روپے کلو اور اچھی اسٹرابری 150 روپے کلو تھی لیکن 21 مارچ کو اسلام آباد میں خربوزہ 200 روپے اور اچھی اسٹرابری 300 روپے کلو تھی ۔
زندگی مہنگی اور مشکل ہوتی جارہی ہے۔ آج اپنی بیٹیوں کو پاس بیٹھا کر کہا میری بیٹیو مہنگائی بہت زیادہ ہے اگر ہم اس سال عید کے کپڑے نہ بنائیں اور کسی مستحق فیملی کی مدد کردیں تو بہتر رہے گا۔ ایک بولی بابا جی آپ سے یہ امید نہ تھی کہ کسی کے لیے آپ ہماری عید خراب کریں بس یہ بتادیں شاپنگ کرنے کب جانا ہے۔ جی اچھا جلد بتادوں گا۔ نہ مہنگائی سمجھتی ہے اور نہ ہی خرچے سب اپنی روٹین میں آگے بڑھتے جارہے ہیں ۔ سب سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی سیاست زوروں پر کر رہی ہیں ۔ الیکشن اگر سادگی سے ہوجائیں اور جلسوں پر ہونے والے اخراجات سے غریب لوگوں کیلئے کاروباری اور امدادی پیکج بنائیں ساری پارٹیاں تو مہنگائی میں کافی کمی لائی جاسکتی ہے۔ میری ساری سیاسی پارٹیوں سے درخواست ہے جلسے جلوس نکالنے کی بجائے غریب خاندانوں کو بچانے کی کوشش کریں امید ہے اس سے پاکستان میں بہتری آئے گی انشاء الله ۔
مجھے اکنامکس کی اتنی سمجھ نہیں اور نہ ہی آئی ایم ایف کے قرضوں کا پتہ ہے پر ہر مہینے جن قرضوں کے نیچے میں دبتا چلا جا رہا ہوں وہ میرے لیے لمحہ فکریہ ہیں ۔ اور ایسے لاکھوں لوگ ہیں جو حکومت کی طرح اعلان نہیں کرتے کہ اب ہمارے سر پر قرضے کتنے ہوگئے ہیں۔ بس سوچتے رہتے ہیں۔
شادی بیاہ والے فوٹوگرافرز سے درخواست ہے سوشل میڈیا پر بڑی بڑی شادیوں کی ویڈیوز اور ریلز نہ لگایا کریں پتہ نہیں کتنے والدین اور انکی بیٹیوں کے دل ٹوٹ جاتے ہیں ۔ شادیاں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک دھوم دھام سے اور ایک فوتگی کی طرح ۔ نہ گھر پرسجاوٹ نہ شادی ھال، نہ بڑی بڑی گاڑیاں اور نہ ہی کوئی ڈھول ڈھمکا۔ بس لو گ بیٹھے ہوتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا شادی ہے یا فوتگی ہے۔ کچھ شادیوں پر کروڑوں کے حق مہر ہوتے ہیں اور کچھ پر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق حق مہر رکھا جاتا ہے۔
اور لوگ اس کا بھی اب مذاق اڑاتے ہیں حق مہر کتنا رکھا یا پھر سنت سے ہی کام چلا لیا۔
پتہ نہیں ہم کس تباہی کی طرف جارہے ہیں ۔ وہ وقت آن پہنچا ہے جب اولاد اپنے سفید پوش والدین سے کھلے عام نفرت کا اظہار کرے گی۔ کہ آپ نے ہمارے لیے کیا کیا ہے۔ ہمیں آپ سے نفرت ہے۔
مہنگائی پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے۔ میری عمران خان صاحب ، نوازشریف صاحب،آصف علی زرداری صاحب، مولانا فضل الرحمن صاحب، الطاف حسین صاحب، اسفند یار ولی صاحب اور باقی سب لیڈران اور پاک افواج سے درخواست ہے ہنگامی بنیاد پر مستحق لوگوں کیلئے امدادی کیمپ لگائیں تاکہ سطح غربت سے نیچے اور سفید پوش لوگوں کی مدد کی جا سکے۔ یاد رکھیں اگر عوام نہیں ہونگے تو حکومت کس پر کرو گے۔ بائیکاٹ کیلئے زندہ انسانوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ مردے بائیکاٹ نہیں کرتے اور نہ ہی ووٹ دیتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد – عوام پاکستان پائندہ باد۔
azhar
March 28, 2023
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020