بارہ دری
بارہ دری
تحریر محمد اظہر حفیظ
ایوب نیشنل پارک ھے اور اس کی بارہ دری غالبا انیس سو اٹھہتر کی بات ھے۔ ھر در کی دیوار پر ایک شیشے کا ڈبہ لگا ھے جس میں مختلف طرز کی مچھلیاں ھیں میں گھنٹوں بیٹھا ان مچھلیوں کو دیکھتا رھتا تھا زرد رنگ مچھیلیاں بہت خوبصورت لگتیں تھیں سوچتا رھتا تھا اللہ باری تعالی انکو کیسے بناتا ھوگا اور ھر ایک کو مختلف رنگ کیسے دیتا ھوگا کوئی بھی کسی سے نہیں ملتی کوئی بہت چھوٹی ھے اور کوئی تھوڑی سی بڑی ۔ مجھے تصویر بنانی نہیں آتی تھی اور نہ ھی میرا مسئلہ تھا۔ بس سمجھ یہ نہیں آتی تھی اللہ انکو کیسے بناتا ھوگا کئی ایکڑ پر پھیلے باغ میں مجھے کوئی اور جگہ پسند نہیں تھی شاید میرا پارک یہی بارہ دری تھی، اور وہ مچھلیوں والے ڈبے اب پتہ نہیں کہاں گئے اب ان دیواروں پر ناکام عاشقوں کی داستانیں لکھی ھیں یا پھر شعر مجھے کچھ نظر نہیں آتا میں بس اپنی مچھلیاں دیکھتا رھتا ھوں ۔ میری بیٹیاں کہتی ھیں بابا جی یہ ھیلی کاپٹر دیکھیں یہ ٹینک دیکھیں، پر میرے ذھن میں تو وہ رنگ برنگی مچھلیاں اور تتلیاں ھیں جو اس پارک کا حصہ تھیں ۔ مجھے جب بتایا گیا کہ یہ پارک فیلڈ مارشل جرنل محمد ایوب خان نے بنایا تھا تو ابا جی سے پوچھا ابا جی یہ فیلڈ مارشل کیا ھوتا ھے بیٹا جو دشمن کے علاقے کو فتح کرے اور اپنے ملک کا حصہ بنادے، اب سوچتا ھوں ماشاءاللہ ھمارے بہت سے جرنیل فیلڈ مارشل ھیں جو اپنے ھی علاقے فتح کرتے ھیں اور جشن مناتے ھیں۔ الحمدللہ ایوب نیشنل پارک بھی فتح ھوچکا ھے اب وھاں مچھلیوں اور تتلیوں کی بجائے ٹینک اور ھیلی کاپٹرز نے لے لی ھے ، شادی ھال بن گئے ھیں، گیسٹ ھاوس بن گئے ھیں، واکنگ ٹریک بن گئے ھیں، موٹرسائیکل ریسنگ ٹریک بن گئے ھیں، کرکٹ کا گراونڈ بن گیا ھے، چڑیا گھر بن گیا ھے، جھولے لگ گئے ھیں اور اگر آپ انکو یادکرنا چاھیں تو میری تحریر پڑھ لیجئے گا کہ یہ جگہ فتح ھونے سے پہلے ایک نیشنل پارک ھوتی تھی پر ایک فائدہ ھے جو پہلے نہیں تھا آپ ٹینک، ٹرین،ھیلی کاپٹر پر سوار ھوسکتے ھیں بھلا مچھلیوں اور تتلیوں پر کون سوار ھو سکتا تھا۔ جو پہلے دل فتح کرتے تھے وہ اب اپنے ھی علاقے اور زمینیں فتح کرنے پر لگے ھوئے ھیں۔ مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ایک درخواست ھے میری مچھلیوں کے ڈبے دوبارہ لگادیں اور کچھ پھول اور تتلیاں بھی۔ میں نے ٹینکوں پر خون لگے تو دیکھا ھے کبھی تتلیوں کو بیٹھتے نہیں دیکھا، میرے دوست میرے کلاس فیلو عامر وحید، راشد نور اور سعدیہ خان آرمی میوزیم بناتے ھیں اور کمال کر دیتے ھیں راولپنڈی اور لاھور کا آرمی میوزیم اس کی زندہ مثال ھے اور ایسے میوزیم ھونے بھی چاھیئں تاکہ ھماری نسلوں کو پتہ چل سکے ھماری طاقت اور کمزوری کیا ھے ھسٹری کیا ھے ، پر ھر جگہ پر ایسے ماڈل لگانا سمجھ سے باھر ھے، ھم پارکس میں ذھنی سکون کیلئے جاتے ھیں یا پھر جنگی جنون کیلئے، ایوب نیشنل پارک میں آپ پرندے کی تصویر لینا چاھیں تو ریٹائرڈ فوجی بھائی پوچھتے ھیں کس سے پوچھ کر پرندے کی تصویر بنا رھے ھو، یقینا پرندے بھی قومی تنصیبات ھیں جیسے ھندوستان نے ھمارے ایک کبوتر پر بہت تحقیق کی یہ پیغام رسانی کر رھا ھے، میری فوج قابل صد احترام ھے اور رھے گی انشاءاللہ کچھ دوستوں کے اقدامات اس کی طرف انگلیاں اٹھواتے ھیں ان سے گریز کیا جانا چاھیئے۔ میں ھر ممکن کوشش کرتا ھوں کینٹ کے علاقوں میں جانے سے گریز کروں پر ماشاءاللہ یہ روز بروز پھیلتے ھی جارھے ھیں، اللہ انکو مزید ترقی دیں امین، یہ وطن تمھارا ھے تم ھو پاسباں اس کے، پہلے سرکاری کینٹ ھوتے تھے اب پرائیویٹ کینٹ بھی بننا شروع ھوگئے ھیں، ڈیفینس ہاوسنگ، ائیرفورس ھاوسنگ، پاکستان آپ کا ھے ھمارا ھے یہ علیحدہ علیحدہ علاقے بنانے کی ضرورت کیوں پیشں آرھی ھے سب مل جل کر ساتھ رھیں تو اس میں برکت زیادہ ھے۔ یہ میری عاجزانہ درخواست ھے اس پر غور کیجئے، جینے دیجئے جناب فیلڈ مارشل صاحبان ۔ بے شک آپ ھمارے دل جیت چکے ھیں پرزمینیں تو رھنے دیجیئے۔ میرا ملک بھی بارہ دری بنتا جارھا ھے جہاں جس در سے نکلو سامنے کا منظر ایک ھی ھے، پر افسوس اس میں مچھلیاں ، تتلیاں اور پھول نہیں ھیں
azhar
February 25, 2020
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020