بلا عنوان
بلا عنوان
تحریر محمد اظہر حفیظ
زندگی گزر گئی نہ کوئی جھرنے کی آواز سنی نہ کوئی کوئل کی آواز سنی نہ کوئی پھولوں کی خوشبو ملی اور نہ ھی بارش کی پہلی بوندوں کے ساتھ آنے والی مہک کو محسوس کیا، نہ برف پڑتے دیکھی نہ ھی سمندر کی لہروں کو اپنی طرف آتے دیکھا نہ ھی کھائیوں کو دیکھ کر خوف محسوس ھوا، نہ کے ٹو دیکھا،نہ راکا پوشی دیکھا،نہ ھی نانگا پربت دیکھا، نہ تتلیاں دیکھی نہ ھی انکو پکڑنے کی کوشش کی ،نہ ھی تھرپاکر دیکھا نہ ھی وھاں کے فینسی ڈریس میں ملبوس خواتین دیکھیں ، نہ زیارت گیا اور نہ بابو سرٹاپ کھلتے بند ھوتے دیکھا، ساری جھیلیں میرے انتظار میں گدلی ھوگئیں،دیوسائی بھی برف اوڑھ کر سوگیا اور برفانی ریچھ اپنی غاروں میں چلے گئے، گوادر میرے انتظار میں بندرگاہ بن گیا پر میں نہیں گیا،لاھور قلعے کے قیدی میرا انتظار کرتے کرتےآزاد ھوگئے بادشاھی مسجد کے نمازی میرے لئے دعا کر کے چل دیئے میں نہیں پہنچ پایا، شالامار باغ کے چشمے فوارے خشک ھوگئے میرے انتظار میں پر مجھے فرصت نہ ملی، مسجد وزیر خان،سنہری مسجد، دراوڑ فورٹ، روھتاس فورٹ، قائد کامزار،علامہ اقبال کامزار،بلھے شاہ کا مزار،داتا دربار،شاہ رکن عالم،شاہ شمس تبریز،سرسوں کے کھیت، کھجور کے باغ،سکول کے بچے،جناح باغ،مینار پاکستان،فیصل مسجد،دامن کوہ،فیری میڈوز،شنگریلا،سکردو،گلگت ، جھیلیں، میرے دوست،میرے عزیز،میرے بچے پتہ نہیں کون کون میرے انتظار میں ھے اور میں نوکریاں ھی کرتا جارھا ھوں۔ مجھے احساس ھو رھا ھے کہ میں نمائشیں تو کر رھا ھوں پر تصویریں نہیں بنا پا رھا۔ اور یہ احساس مجھے جینے نہیں دے رھا میں بوڑھا ھو رھا ھوں اور گھلتا جا رھا ھوں ان سب کی تصویریں اور پیار مجھ پر قرض ھیں اور مقروض کا تو جنازہ بھی نہیں ھوتا۔ میری راھنمائی کیجئے کیا کروں۔ یہ سب مجھ سے ناراض ھیں ابھی تو مجھے ان سب کے راستے آتے ھیں کہیں کل کو نیا پاکستان بن گیا تو پتہ نہیں کس کس کی کہاں تعیناتی ھو جائے اور میں ان سے نہ مل پاوں ۔ نئے پاکستان کی تعمیر کے سلسلے شروع ھو چکے ھیں، نوا لاھور،نوا شاھدرہ،نوا گوجرہ،نوا ساھیوال تو بن گئے ھیں دیکھو نوا پاکستان کدوں بندا اے۔ میریا ربا کوئی انتظام کردے ان سب سے ملادے۔ اپنی ملاقات سے پہلے ۔
azhar
November 20, 2019
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020