تھیلا

تھیلا
تحریر محمد اظہر حفیظ

بچپن کے دن تھے اور تھیلا ھمارے سکول یونیفارم کا ھی حصہ تھا، میری امی جی لڑکیوں کے سکول میں ھیڈ میسٹرس تھیں۔ امی جی سلائی بہت اچھی کرتی تھیں۔ امی جی ھمیں ملیشیا کپڑے کے بہترین تھیلے سی کر دیتیں تھیں جس کے اندر اور باھر بھی جیب لگی ھوتی تھی جو قلم دوات ڈالنے کے کام آتی تھی تختی بھی اسی کے اندر آجاتی تھی لنچ بھی اور کتابیں بھی ۔ تھیلا بڑا برکت والا ھوتا تھا اس میں سب کچھ ھی آجاتا تھا۔ میرا خیال ھے عمرو عیار کی زنبیل بھی ایک تھیلا ھی تھا۔ اسکو ھم بستہ بھی کہہ لیتے تھے۔ میرا اور میرے چچازاد بھائی کا تھیلا امی جی بلکل ایک جیسا سی دیتیں تھیں ناصر بھائی میرا چچازاد بھی تھا اور میرا لگوٹیا یار بھی۔ لیکن ھمارے ایک طرح کے تھیلے کی وجہ سے سب لوگ ھم کو بھائی ھی سمجھتے تھے ۔ اور ناصر شفیق بھائی نے یہ حق ھمیشہ ادا بھی کیا گھر اور سکول سے ھمیں سزائیں بھی ساتھ ساتھ ھی ھوتی تھیں ۔ تھیلا ایک بڑا کارگر ھتھیار بھی تھا آپ باآسانی اس سے قتل بھی کر سکتے تھے اگر شیشے کی سیاھی دوات کو تھیلے کی نکر پر رکھ کر گرہ لگا دی جائے اور اس تھیلے کا باقی سامان یار کے ھم شکل تھیلے میں ڈال دیا جائے تو یہ ایک بہت کارگر اور سر پھاڑ قسم کا ھتھیار بن جاتا تھا کسی کو سپیڈ سے گھما کر فٹ کیا جائے تو وہ مشکل ھی سے پھر اٹھ سکتا تھا۔ ھم اس کو اکثر حفاظت یا لڑائی کیلئے استعمال کرلیتے تھے۔ ھم نے دیکھا کہ امی جی ھمارے ساتھ ساتھ ابا جی کیلئے بھی اسی طرح کا تھیلا سیتیں تھیں جو بازار سے گوشت،سبزی،پھل وغیرہ لانے کے کام آتا تھا اور اٹھانا اور سائیکل سے لٹکانا دونوں میں آسان تھا اور بہت زیادہ باپردہ بھی تھا کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا تھا کہ کیا آیا ھے اس وقت تو لوٹے بھی پیتل یا سلور کے ھوتے تھی پلیٹیں اور برتن بھی سٹیل یا پھر تام چینی کے ھوتے تھے سادہ زندگی تھی اور ماحول بھی صاف ستھرا تھا۔ 
پھر دنیا میں ترقی ھونا شروع ھوئی اور باٹا اور سروس کے جوتے پلاسٹک کے لفافوں اور شاپرز میں آنا شروع ھوئے تھیلے ناپید ھونا شروع ھوئے آور آھستہ آھستہ قصہ پارینہ بن گئے، تھیلے کی جگہ شاپر نے لے لی اور بستے کی جگہ پیراشوٹ بیگز نے لے لی۔
بے شرمی اور بے پردگی کے دور کا آغاز ھوا۔ رزق بے پردہ ھوگیا۔ آپ جو بھی لا رھے ھیں سب نظر آرھا ھے پہلے پہلے شرم آتی تھی پھر ھم بے شرم ھونا شروع ھوگئے، یہاں تک کہ گھر سے لنچ بھی لوگ انہی بے پردہ شاپرز میں لانا شروع ھوگئے۔ کسی پر بڑی بیکری کا نام لکھا ھوتا یا پھر کسی بڑے ھوٹل کا نام لکھا ھوتا اور اندر وھی گھر کی دال روٹی اور یوں جھوٹ اور دکھادے کا بھی آغاز ھوگیا۔
بڑے بڑے بوتیکس نے بھی اپنے شاپر بنا لئے لوگ اس میں بھی جھوٹ ڈال کر فخر محسوس کرتے اور دوسروں کو احساس کمتری کا شکار کرتے کبھی شاپر کھاڈی کا ھوتا اور کبھی جنید جمشید کا کبھی ثنا صفینہ کا اور اس کے اندر کپڑے وھی نقلی ھوتے ۔ بس دکھانا یہ مقصود ھوتا کہ ھم برانڈڈ کپڑے پہنتے ھیں۔
اب شاپر کی بے عزتی تو ھونی ھی تھی چیز جو گھٹیا اور بے پردہ اور بے ھودا تھی اوپر سے عمر بھی اس نے شیطان کی پائی تھی کئی کئی ھزار سال۔ پھر کیا تھا شیطان کی طرح ذلیل ھونا شروع ھوگیا کسی کو الٹی آرھی ھے تو شاپر دے دو کسی نے پیمپر پھینکنا ھے تو شاپر دے دو اور جناب ذلیل ھوتے ھوتے گٹر اور ندی نالوں تک پہنچنے لگے لیکن اپنی بے ھودا حرکت سے پھر بھی باز نہیں آیا اور گٹر ندی نالوں کی بندش کا سبب بننے لگا تو حکومت کو ھوش آگیا شاید عوام کو نہیں۔ 
عوام ابھی بھی اسی کے حق میں ھے پر میرے دو عظیم دوست حماد شمیمی صاحب اور فرزانہ الطاف شاہ صاحبہ اور انکے محکمے نے اس بے شرم اور بے پردہ شیطان صفت چیز کو پابند کرنے اور اس کی اصلاح کرنے کا ذمہ اٹھا لیا۔ یہ میرے دونوں محترم دوست ھنس مکھ اور ھر وقت چہرے پر تبسم لئے ھرگز بھی کمزور افسران نہیں ھیں میں ان دونوں کو بہت اچھی طرح جانتا ھوں جب یہ کچھ کرنے کا سوچ لیں تو پھر یہ کسی کی کیا اپنی بھی نہیں سنتے۔ ھمارے مشترکہ دوست کھوکھر صاحب سے بات ھوئی۔ بلکہ میری ان سے دوستی کھوکھر صاحب کی وجہ سے ھی ھے کہنے لگے بھائی میں نے تو گاڑی میں تھیلے اور سٹیل کا ڈھول رکھ لیا ھے۔اور یہ ھمارے لئے کونسا نئی چیز ھے تو میں نے بھی بتا دیا جناب یہی کام میں بھی کرچکا ھوں کیونکہ ھمیں بخوبی اندازہ ھے کہ قانون کی خلاف ورزی پر یہ ھمیں بھی معاف نہیں کریں گے باقی دنیا تو دور کی بات ھے۔تھیلا اپنی زندگی میں واپس لائیں آپ یقین جانیں حیا اور پردہ بھی آپکی زندگی میں واپس آجائیں گے انشاءاللہ۔ شکریہ میرے عظیم دوستو۔ پاکستان میں شرم اور حیا واپس لانے کی عملی کوشش شروع کرنے کا۔
کل کسی نے بتایا کہ بازار میں کچھ بیوقوف لوگوں نے حماد صاحب اور فرزانہ صاحبہ کو دھکے دیئے بدتمیزی کی میرا دل بہت دکھا لیکن یاد رکھنا جب بھی بے شرم لوگوں سے شرم اور حیاء کی بات کی جائے وہ اس طرح کی احمقانہ حرکتیں ضرور کرتے ھیں بے شک آپ زمانہ جاھلیت کا دور دیکھ لیں وہ انبیاء کرام کے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے۔ میں دوست کے طور پر بھی اور پاکستانی عوام کی حثیت سے بھی آپ دونوں اور آپکی ٹیم سے معافی مانگتا ھوں جاھل لوگوں کے ناروا سلوک کی۔ میں اور میری پاکستانی عوام آپ کے شکر گزار ھیں جو اقدامات آپ اٹھا رھے ھیں ھمارے لئے اور ھماری آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے۔ شکریہ
کچھ لوگ تھیلا استعمال کرتے ھوئے شرماتے ھیں پر تھیلا کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ھیں۔ کچھ لوگ شاپر شخصیت کے بھی مالک ھوتے ھیں جو ھوا کے زور سے ھی ادھر ادھر ھوتے رھتے ھیں۔

Prev فوٹوگرافی کا عالمی دن
Next ایوارڈ

Comments are closed.