جب ھم بہادر ھوئے
جب ھم بہادر ھوئے
تحریر محمد اظہر حفیظ
ساری زندگی ڈرتے ھی گزر گئی ابا جی بہت غصے والے تھے اور امی جی بہت بااصول، باھر لڑکر آتے تھے، مار کھائی ھو یا مارا ھو دونوں صورتوں میں گھر پہنچ کر پھر چھترول شروع ھوجاتی تھی، تو لڑیا ھی کیوں، پھر ھم کچھ اداکار ھوگئے اور گھر آکر یہ محسوس کرانے کی کوشش کرتے کجھ ھویا ھی نہیں، یہ اداکاری فنکاری ساری دنیا کے ساتھ تو چل سکتی ھے پر ماں باپ کے سامنے نہیں، یہ بات ماں باپ بنے بغیر آپکے علم میں نہیں آسکتی، پھر مار پڑتی، کیا ھے جو چھپا رھے ھو، بس اسی طرح ڈرتے ڈرتے زندگی کا زیادہ حصہ گزر گیا، پھر 2011 میں امی جی اللہ پاس چلیں گئیں ان کے جانے کا دکھ بھی تھا اور کچھ ڈر ختم ھونے کا اندیشہ بھی تھا پر یہ کیا ھوا اباجی اب مکمل طور پر غصہ بھول چکے تھے اور امی جی کی روح بھی ان میں آگئی تھی، ملے بغیر سوتے نہیں تھے، ھروقت دعائیں کرنا، مجھ سے اور ھماری بیٹیوں سے بہت گفتگو کرتے میری بیوی تو ان کو بس بیٹی مل گئی تھی سب اچھا اچھا چل رھا تھا ابا جی بیمار ھوئے اور 2015 میں اللہ پاس چلے گئے، باقی گھر کے ساتھ ساتھ مجھ پر اس بات کا بہت اثر ھوا، ایک بات سمجھ آئی کہ ھر بہن بھائی کا ماں باپ سے مختلف رشتہ ھوتا ھے اور جو گھر میں چھوٹا ھوتا ھے اس پر اس کا اثر زیادہ ھوتا ھے، میرے بڑے بھائی اکثر کہہ جاتے ھیں شاید اظہر کے امی ابو زیادہ فوت ھوئے ھیں حالانکہ ھم دونوں کا رشتہ ایک ھی ھے میں شاید ان کو سمجھا نہیں سکتا، کیونکہ میں چھوٹا ھوں اور میری عقل بھی چھوٹی ھے، میں اب اس ڈر میں رھنے لگا کہ امی ابو بھی نہیں رھے ھمیں کچھ محتاط ھوجانا چاھیئے، کچھ عرصے بعد ھی بہت ھی عزیز دوست شکیل اعوان اور یوسف اعوان صاحب کے والدین بھی چلے گئے، والدہ پہلے چلی گئیں اور والد بعد میں، انکے والد صاحب کو قبر میں اتار رھے تھے تو دفتر سے بار بار فون آرھے تھے، فون سائلنٹ پر تھا تدفین کے بعد دفتر فون کیا تو سوال تھا کہاں ھیں صاحب پوچھ رھے ھیں، جی جنازے پر ھوں، فارغ ھو کر آتا ھوں، میرا موڈ کچھ آف ھوگیا اور شکیل اعوان میرے پاس آگیا ویرے کی گل اے یار دفتر والیاں نوں چین نئیں فون تے فون، جا ویرے چپیڑاں کرادے، کی مطلب یار ماں باپ آپکے بھی نہیں رھے اور میرے بھی تو یہ شکایت کس کو لگائیں گے باقی زندگی ڈرنا نہیں ھے بہادر بن کر رھنا ھے، جی الحمدللہ اس دن سے ھم بہادر ھوگئے، اور اب کون کس سے میری شکایت کرے یہ تو سب کو پتہ ھے کہ پیدائشی طور پر ایک جگا میرے اندر رھتا ھے، بڑی مشکل سے اس کو امی ابو کے ڈر سے چپ کرا کر بیٹھایا ھوا تھا، جب امی ابو ھی نہ رھے تو پھر ڈرنا کیسا، اب کھل کر لکھتے ھیں برے کو برا اور اچھے کو اچھا کہتے ھیں، بات وھی کرتے ھیں جس کو دل دماغ مانے، باقی منانے والا کوئی ھے ھی نہیں، درخواست ھے درخواست کر لینا ، ڈراو گے تو ڈرنے والا میں رھا نہیں ھوں، شکایت کس کو لگاو گے، کچھ دوستوں کو سب پتہ ھے مہربانی فرما کر ان کی گواہی پر پرچے درج کئے جائیں، اور سب غدار وطن کو قرار واقعی سزا دی جائے، چاھے اس کا تعلق کسی بھی ادارے یا شعبے سے ھو، اگر تو آپ کے ماں باپ ھیں تو ڈر کر کام کریں نہیں ھیں تو بہادر بن جائیں، جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہیں، اس سے کم از کم آپکی اور آپکے والدین کی آخرت اچھی ھوجائے گی، اور دنیا بھی کہے گی کسی سچے اور اچھے انسان کی اولاد ھے، ورنہ جھوٹ بولیں مکھن کی دوکان کھولیں مکھن لگائیں اور بیچیں، جلد ھی آپ کو اپنے آپ سے گھن آنا شروع ھوجائے گی، چاھے آپ جس بھی نیکو کار کی اولاد ھیں، ایک اور مفت مشورہ ھے اپنے کام سے کام رکھیں، سچ پڑھ کر نہیں بولے جاتے، سچ کی اپنی زبان ھے اور وھی ھمیشہ رھے گی، کتنے ظالم ھو اپنے جھوٹے الفاظ بیچتے ھو، سچ تو برائے فروخت نہیں ھوتا ، سچ تو قائم رھتا ھے ھر دور میں، اور اسی کا بول بالا ھے تاقیامت،
سلامت رھیں خوش رھیں آمین
azhar
June 7, 2021
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020