جب ھم چھوٹے تھے تو اچھے تھے

جب ھم چھوٹے تھے تو اچھے تھے
تحریر محمد اظہر حفیظ

جب ھم چھوٹے تھے تو ھمارے گناہ اور ڈر بھی چھوٹے چھوٹے ھوتے تھے لڑتے لڑتے معاف بھی کرتے جاتے ھیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کوئی آج کی لڑائی کل تک گئی ھو۔ تھوڑی دیر میں پھر کھیلنے لگ جاتے تھے۔ جھوٹ نہیں بولتے تھے کہ کہیں منہ سے بدبو نہ آنا شروع ھوجائے کیڑے نہ پڑ جائیں ۔ نمک تک نیچے نہیں گراتے تھے کہ پھر پلکوں سے اٹھانا پڑے گا۔ اپنی چوٹ بھول جاتے تھے فکر ھوتی تھی چیونٹی کے آٹا گرنے کی۔ ھائے کتنے اچھے دل تھے۔ کسی کو گالی نہیں دیتے تھے برا نہیں کہتے تھے۔ کیونکہ امی جی کہتیں تھیں جو کہتا ھے وھی ھوتا ھے۔ اور ڈرتے تھے جو کسی کو کہیں گے کہیں ھم ھی نہ ھوجائیں ۔ چوری نہیں کرتے تھے۔ سچ بولتے تھے۔ نماز پڑھتے تھے سات سال کی عمر میں نماز فرض جو ھو جاتی تھی۔ روزے رکھتے تھے۔ قرآن مجید پڑھتے تھے۔ سورتیں یاد کرتے تھے۔ سب دعائیں یاد تھیں سونے کی دعا، کھانے کی دعا، پانی پینے کی دعا، سفر کی دعا، ڈر سے بچنے کی دعا، بجلی چمکنے کی دعا، بیماری کی دعا، نئے کپڑوں کی دعا، پریشانی کی دعا، قرض سے نجات کی دعا،مسجد جانے کی دعا، گھر داخل ھونے کی دعا، مسلمانوں کی بخشش کی دعا۔ سب اچھے تھے اور سب کچھ اچھا تھا۔ سب کے دکھ سانجھے تھے، خوشیاں سانجھی تھیں، کوئی بیمار ھوتا سب خبر لینے جاتے تھے۔ ھر چیز میں برکت تھی، احترام تھا، کوئی غریب امیر نہیں تھا سب اپنے تھے سب سگے تھے، طلاق کا لفظ کبھی سنا نہیں تھا، لڑکے لڑکوں کے دوست ھوتے تھے اور لڑکیاں لڑکیوں کی دوست۔ شرم تھی حیاء تھی۔ ٹی وی ڈرامے بھی نصیحت اموز ھوتے تھے، کوئی قتل، اغوا، چوری، ڈکیتی نما چیز نہیں ھوتی تھی۔ سب مل بانٹ کر کھاتے تھے، کوئی جمع نہیں کرتا تھا سب تقسیم کرتے تھے اور تعلق جمع کرتے تھے۔ پھر پتہ نہیں ھم بڑے ھونا شروع ھوئے کہ برے۔ ھم سب کچھ بھولتے چلے گئے نماز چھوڑ دی، سچ چھوڑ دیا، احترام چھوڑ دیا، ڈرنا چھوڑ دیا، سب دعائیں بھول گئے اور تو اور جو فرض تھے وہ بھی بھول گئے یا قضا ھوگئے۔ میری ایک بہن تھی ایک بھائی تھا میں بھول گیا، میرے دو چچا اور دو تایا تھے، ایک پھوپھی تھی۔ میں بھول گیا، میری ایک ماں تھی ایک باپ تھا میں بھول گیا۔ میرا ایک گاوں تھا میں بھول گیا، میرے کچھ دوست تھے میں بھول گیا۔ میری خالائیں، ماموں سب ھی تو بھول گیا۔ میرا ایک رب ھے میں بھول گیا میں پتہ نہیں اتنا برا کیسے ھوگیا لوگ کہتے ھیں میں بڑا ھوگیا ھوں مجھے لگتا ھے میں برا ھوگیا ھوں۔ مجھے یاد ھے مجھے میری ماں کہتی تھی میرا اظہر بڑا ھوکر بڑا آدمی بنے گا میں سنتا رھتا تھا کوشش کرتا رھتا تھا پھر میں تھک گیا ایک دن میں انکی گود میں سر رکھ کر رونے لگ گیا۔ امی جی کہنے لگیں کیا بات ھے کیا ھوا میرے لعل کو۔ دل چھوٹا نہ کر۔ امی جی ایک بات پوچھوں۔ کیا کوئی رب کی بنائی ترتیب کو بدل سکتا ھے؟ کیاکوئی اس سے بھی بڑا ھے؟ کفر کی باتیں نہ کیا کر پتہ نہیں کیا کیا سوچتا رھتا ھے۔ امی جی بھی اکثر میرے سوال سن کر رو پڑتیں تھیں۔ امی جی جب اللہ نے مجھے دو بہن بھائیوں سے چھوٹا پیدا کیا ھے، میں گھر میں سب سے چھوٹا ھوں۔ جی میرے لعل۔ تو پھر آپ مجھے بڑا بنانے کے چکر میں کیوں پڑی ھوئی ھیں۔ مجھے چھوٹا ھی رھنے دیں۔ اچھا الٹی باتیں نہ کیا کر۔ اب نہیں کہوں گی۔ کون سی بات کہاں کہاں سے لاتا ھے اور کرتا ھے۔ سیدھی بات کیا کر تجھے نہیں پتہ میں تیری باتوں سے کتنا ڈر جاتی ھوں ھر وقت تیری ھدایت کی دعا مانگتی ھوں۔ میرا اللہ تجھے اچھا انسان بنائے۔ امین۔ آج سوچتا ھوں یہ جو چھوٹے بچے فوت ھوجاتے ھیں لوگ باتیں کرتے ھیں یہ ماں باپ کی بخشش کا ذریعہ بنیں گے بالکل درست ھےکیونکہ وہ اچھے ھی بہت ھوتے ھیں اس لئے بخشش کا ذریعہ ھی بنیں گے اور جو بڑے یا برے ھوگئے ان کے جینے مرنے کا تو ماں باپ کو بھی نہیں فائدہ دنیا کو کیا ھوگا، اللہ سے دعا ھے وہ ھمیں بے شک چھوٹا ھی رکھے پر اچھا رکھے امین ھمارے ھاتھ، آنکھ، زبان سے سب کو محفوظ رکھے امین۔ آو دوبارہ سے چھوٹے ھوجاتے ھیں اپنے اپنے فرض نبھاتے ھیں ۔ اپنے رب کو اور سب کو راضی کرتے ھیں ۔

Prev لئی
Next سایہ

Comments are closed.