جوان موت
جوان موت
تحریر محمد اظہر حفیظ
اللہ باری تعالیٰ کسی بھی ماں باپ کو اولاد کی موت یا دکھ نہ دکھائے۔ یہ ایک ایسا دکھ ہے جس سے میرے نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی آنکھیں مبارک بھی نم ہوگئیں تھیں۔
ماں باپ اولاد کے جنازے اٹھائیں اللہ تعالی یہ دن کسی بھی ماں باپ کو نہ دکھائیں آمین۔
علی بلال بوڑھے ماں باپ کا بیٹا کل لاہور میں سیاست کی نظر ہوگیا دل خون کے آنسو رویا۔ یاد رکھنا اولاد ماں باپ کی ہوتی ہے کسی سیاستدان کی نہیں۔
میں سارے ماں باپ کی اولاد کی خیر مانگتا ہوں۔ وہ اولاد میری ہو یا آپکی، عمران خان کی ہو یا آصف علی زرداری کی، وہ نواز شریف کی ہو یا فضل الرحمن کی اولاد تواولاد ہوتی ہے ۔ کچھ کم عقل دوسرے سیاستدانوں کو بدعا دے رہے ہیں کہ تمھاری اولاد مرے گی تو احساس ہوگا۔
بطور والد میری روح ہل جاتی ہے جب کوئی نامعقول انسان اس طرح کی دعا کرتا ہے۔
اس درد کو سب سے زیادہ نصرت بھٹو صاحبہ نے دیکھا، شوہر، بیٹے اور پھر بیٹی سب ہی تو چلے گئے۔ پشاور سے اطلاعات کے وزیر تھے میاں افتخار حسین صاحب کا جوان سال بیٹا بم دھماکے میں شہید ہوگیا۔ بلور فیملی کے لوگ بھی دھماکوں میں شہید ہوئے،ڈاکٹر شیرافگن کا جوان بیٹا کار حادثے میں جان بحق ہوگیا۔ شیرپاو فیملی کی قربانیاں۔
سوچتا ہوں تو دل دہل جاتا ہے جب لوگ کسی کی اولاد کیلئے بددعا کرتے ہیں، اللہ کے واسطے رحم کیجئے، سیاسی وابستگی میں حد سے مت گزرئیے۔
میرے سامنے والے دو گھروں میں دو جوان بچے اللہ کی پیارے ہوگئے ، تیمور جو یوفون کا افسر تھا کینسر جان لیوا ثابت ہوا۔ کئی برس بیت گئے تیمور بھائی کی بیوی ، بچوں، ماں، بہنوں سے آج تک میں نظریں چراتا ہوں کیونکہ انکو دیکھتے ہی میری آنکھیں بھر آتی ہیں، انکے ساتھ والے گھر میں آنٹی ثریا کا جوان سال بیٹا بھی طبعی طور پر فوت ہوگیا تھا ان سب سے بھی نظریں ملانے کی میری ہمت نہیں ہے سوچتا ہوں تو ہچکی بند جاتی ہے ۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے سابقہ ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر مصطفی مندوخیل صاحب کا بھی جواں سال بیٹا قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوگیا ۔ میری تو کبھی ہمت ہی نہیں ہوئی کہ میں مندوخیل صاحب کا سامنا کرسکوں بس نظر آجائیں آنکھیں چھم چھم برسنا شروع ہوجاتی ہیں۔
شاید میری زندگی کا یہ کمزور پہلو ہے۔
آج سارا دن سوشل میڈیا پر ان لوگوں کو ان فرینڈ کیا جو سیاسی مخالفت میں دوسروں کے بیٹوں کے مرنے کی بددعا کررہے تھے۔
سیاستدانوں کو خاص طور الیکشن کے قریب ہر جنازے میں شرکت کرتے دیکھا ہے۔ لیکن میاں اسلم جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے ۔ ہر جنازے شرکت کرتے ہیں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قبر بنانے والے انکو اطلاع کردیتے ہیں ۔ اللہ انکو انکی نیکی کا،اجر عظیم عطا فرمائے آمین۔
کم ہی اسلام آباد میں جنازے دیکھے جن میں میاں اسلم صاحب موجود نہ ہوں۔
باقی سیاستدان نہ جا سکیں تو اپنی پارٹی کے لیڈروں کو شرکت کیلئے بھیج دیتے ہیں کچھ سیاستدانوں کو جنازوں پر شرکت کی اجازت نہیں ہے، وہ لواحقین کو گھر بلا کر دعا کر لیتے ہیں۔
مجھے یاد ہے جب میرے والد فوت ہوئے کچھ دن بعد میں دفتر گیا تو ایک ڈائریکٹر نے اپنے عملے سے کہا اظہر صاحب آئے ہیں ائیں انکے والد کی دعا کرتے ہیں مجھے اچھا نہیں لگا کیونکہ میں انکے دفتر گیا تھا۔ اگر وہ میرے گھر نہیں آسکتے تھے تو کم از کم میرے دفتر دعا کیلئے آسکتے تھے چلو کوئی بات نہیں کچھ لوگ عادت سے مجبور ہیں۔
لیکن اس سے لواحقین کی دل آزاری ہوتی ہے
سیاست ضرور کیجئے پر کوئی بھی سیاسی پارٹی برائے مہربانی لاشوں پر سیاست مت کرے۔
اللہ سب والدین کی اولاد کو سلامت رکھے آمین۔ اور بددعا دینے والے کم عقلوں کو ھدایت عطا فرمائے آمین۔ بے شک وہ ہی بہتر ھدایت دینے والے ہیں۔ کم ظرف کبھی بھی لیڈر نہیں ہوسکتا۔ 1999 میں جھنگ میں آئل ٹینکر حادثے میں تقریبا 200 افراد ہلاک ہوگئے میں نے اپنی آنکھوں سے قاضی حسین احمد کو جنازہ پڑھاتے دیکھا۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو دوسروں کے جوان بیٹوں کی موت کی بددعا کرتے ہیں۔ یا باری تعالی آسانی کا معاملہ کر دیجئے آمین
azhar
March 13, 2023
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020