جھوٹا

جھوٹا
تحریر محمد اظہر حفیظ

میرے اردگرد کے لوگ اور دوست احباب میری ساری زندگی کی گفتگو سننے کے بعد کہتے ھیں تم جھوٹے ھو یہ سب جھوٹ ھے تو میں جوابا بڑے احترام سے کہتا ھوں جی آپ سچ فرما رھے ھیں میں واقعی بہت بڑا جھوٹا ھوں تو پھر ٹوک کر کہتے ھیں یہ بھی جھوٹ ھے۔ اب کونسی بات کا یقین کروں۔
اگر میں اپنی بات کروں تو مجھے بھی یہ سب جھوٹ لگتا ھے ۔ کہاں میں ایک گاوں کا بچہ 258 ر-ب (رکھ برانچ) پھرالہ نزد ڈجکوٹ سمندری روڈ تحصیل و ضلع لائلپور میں پیدا ھوتا ھے ۔ سفید پوش گھرانہ ھے دو کمرے کا گھر ایک سٹور اور باورچی خانہ اس میں سے بھی ایک کمرہ چھوٹے چچا اور انکی فیملی کے پاس زندگی بہترین گزر رھی تھی زندگی سادہ تھی کسی چیز کی کمی نہ تھی شکر الحمدللہ۔
پختہ گھر عزت دار خاندان ماں باپ دونوں سرکاری ملازم، سب اچھا ھی لگتا تھا۔
میں ایک سادہ اور بیبا بچہ تھا۔ گاوں بھی ھمارا بہت اچھا تھا۔چالاکی نہیں آتی تھی ۔ سب کا احترام کرتا تھا گالی بھی نہیں آتی تھی۔ چوری کا تو پتہ ھی نہیں تھا کیا ھوتی ھے اور جھوٹ بولنا والدین نے سکھایا ھی نہیں تھا۔ مانگنا بھی نہیں آتا تھا۔ پاءجی،چاچا جی، تایا جی،باجی،ماسی،خالہ جی، پھوپھی جی ، کے علاوہ الفاظ نہیں آتے تھے سب اچھا اچھا ھی تھا۔ دریا کبھی دیکھا نہ تھا۔ جب پہلی دفعہ راولپنڈی آئے ابا جی بتاتے یار ویکھ دریائے چناب اور میں سیٹ سے اتر نیچے بیٹھ کر چھپ جاتا میری ھمت نہ تھی دریا دیکھ سکوں۔ ڈرتا تھا۔ میرا خیال تھا دریا میں بہت زیادہ پانی ھوتا ھے شاید پل پر سے بھی گزرتا ھے اور گاڑی بڑی مشکل سے گزرتی ھے۔ دامن کوہ پر 1978 میں پہلی دفعہ آئے تو پتھریلا راستہ تھا شاید سڑک بن رھی تھی رات کا وقت تھا بہت ڈرا،
پھر مجھے میرے کزن نے کہا کہ تمھارا محصول اور چونگی ادا نہیں ھوئی تو ھر چونگی سے چھپ کر گزرتا تھا۔ پھر 1981 ھم راولپنڈی منتقل ھوگئے ایوب پارک ،شکر پڑیاں،راول ڈیم یہ دو تین سیر گاھیں ھوتی تھیں۔ سکول ٹرپ پر تربیلا ڈیم گئے تو پتہ چلا راول ڈیم سے بڑے بھی ڈیم ھوتے ھیں سکول سے کالج آیا ابا جی نے موٹر سائیکل لے دیا اب خود دامن کوہ، راول ڈیم جانے لگے پھر سکاوٹنگ پر بٹراسی، مانسہرہ گئے جہاں اب بٹراسی کیڈٹ کالج ھے۔ اس ٹرپ نے میرے اعتماد میں بہت اضافہ کیا۔ مجھے شرارت کرنی بھی آگئی۔ اور مجھے پتہ چلا میرے اندر ایک شرارتی انسان رھتا ھے۔ اب میں پینٹنگ، فوٹوگرافی، باسکٹ بال، لان ٹینس کھیلنے لگا۔ پھر میرا داخلہ نیشنل کالج آف آرٹس ھوا اور میں لاھورچلا گیا وھاں چار سال کی تعلیم نے میرے اعتماد میں مزید اضافہ کیا، فوٹوگرافی،ڈیزائننگ،مجسمہ سازی، سٹیج ڈرامہ، تقریر اور بہت کچھ سیکھا۔ ساتھ ساتھ اخبارات میں کام کرتا رھا، فیشن، فیچر، بہت سے اخباروں میں کام کیا، فرنٹیئر پوسٹ، نیشن، جنگ، خبریں،اخبار جہاں، ہیرالڈ، فرائڈے ٹائمز، لباس، ٹوڈے، کائنات،اوصاف بہت سے اخبارات میں کام کیا۔ پھر اپنی ایڈورٹائزنگ ایجنسی بنا لی میسٹیک ڈیزائن، پریمیئر ڈیزائن، ایڈکواوریجنلز،امیج پرنٹرز، پھر انٹرفلو،کلک آرٹ، سی سکیئر،سے ھوتے ھوئے پی ٹی وی آگیا، پھر پڑھانا شروع کیا،گندھارا سٹوڈیو،ھنر کدا، ھمدرد یونیورسٹی، بارانی یونیورسٹی، قائداعظم یونیورسٹی، فاطمہ جناح یونیورسٹی، فاونڈیشن یونیورسٹی، نیشنل کالج آف آرٹس راولپنڈی، نسٹ یونیورسٹی، فاسٹ یونیورسٹی، کامسیٹس یونیورسٹی، نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی، اسلامی یونیورسٹی، اقراء یونیورسٹی، محمد علی جناح یونیورسٹی، کیپیٹل یونیورسٹی، بحریہ یونیورسٹی، ایئر یونیورسٹی، سرحد یونیورسٹی اور بہت سی یونیورسٹیوں میں پڑھایا اور پڑھا، فوٹوگرافی کی آٹھ سولو نمائشیں کیں، سو گروپ شو کئے، ملکی اور غیر ملکی دورے، مخلص دوست، عزیز رشتے دار، ساتھ پی ٹی کی نوکری، شادی چار بیٹیاں، بھانجے، بھانجیاں، بھتیجیاں ، بھتیجے، سب رشتے شکر الحمدللہ۔
ماں باپ کا اللہ پاس چلے جانا، یتیم مسکین ھوجانا، اللہ کے گھر کی حاضری،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس پر حاضری، یہ سب میری زندگی کے حقیقی حصے ھیں۔ لیکن سچ بتاوں تو جب رات کو بستر پر لیٹا ھوا سوچتا ھوں تو مجھے خود یہ سب جھوٹ لگتا ھے۔ مجھے خود یقین نہیں آتا کہ میرے رب کے فضل اور کرم نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ شکر الحمدللہ۔ تو جناب آپ کو کیسے آئے گا۔ اس لیئے میں واقعی جھوٹا ھوں اپنے سامنے بھی اور آپ کے سامنے بھی۔ نہ مجھے یقین آتا ھے نہ آپ کو آئے گا بس دعا کیجئے گا۔ میرے اللہ میرا بھرم قائم رکھیں امین کیونکہ وہ یقینا جانتے ھیں میں کون ھوں اور کیا ھوں اور میری نیت کیا ھے ۔ جزاک اللہ خیر

Prev چھوٹے فریم
Next پتھر

Comments are closed.