خاموش

خاموش
تحریر
محمد اظہر حفیظ

آج کسی کی لکھی ھوئی خوبصورت بات پڑھی” جب تمھارا بات کرنے کو دل نہ چاھے تم مجھے فون کرلینا ھم دونوں خاموش رھیں گے”
خاموش رھنا عبادت بھی ھے اور ظلم بھی۔ اگر آپ کسی کی دل آزاری کرنے کی بجائے خاموش رھیں تو یہ عبادت بن جاتی ھے اور اگر ظلم دیکھ کر خاموش رھیں تو یہ ظلم بن جاتی ھے۔ ساری زندگی بولتے گزارا دی۔ کئی لوگوں کی دل آزاری کی اور اس کو شغل سمجھتا رھا۔ ان سب سے دلی طور پر معذرت خواہ ھوں درخواست ھے معاف کردیا جائے۔ دوسری طرف ھر ظلم کے خلاف آواز بلند کی اس کی بہت سی سزائیں بھی بھگتیں اور دشمنیاں بھی پالیں۔ زندگی گزرتی رھی اور میں جو دل و دماغ میں درست دکھائی دیا کرتا رھا اور شاید کرتا رھوں گا۔ مجھے چپ کرانے کیلئے کئی فارمولے آزمائے گئے اور آزمائے جا رھے ھیں۔ ماسوائے خاموشی سے مسکرانے کے میرا کوئی اور تاثر نہیں ھوتا، میں ھر وقت حالت دعا میں رھتا ھوں اور بددعا شاید مجھے دینی ھی نہیں آتی۔ پہلے تعلق جلدی قائم کر لیتا تھا، اب خاموش رھتا ھوں۔ نوکری شاید مجھے کرنی نہیں آتی کیونکہ اب نوکری جھوٹ اور خوشامد کا نام ھے۔ اور ایسے لوگ صاحب اقتدار آگئے ھیں جن کے اردگرد خوشامدی ٹولے پائے جاتے ھیں اور وہ ان کے بغیر چل بھی نہیں سکتے۔ نیشنل کالج آف آرٹس لاھور میں مجھے پروفیسر محمد آصف مرحوم نے کہا تھا زندگی گزارنے کے دو طریقے ھیں۔ یا تو اپنے حصے کا ایک دس لوگوں پر مشتمل گروہ بنا لو ان کو لیڈ کرو۔ اگر استطاعت نہیں ھے تو کسی کے گروپ میں شامل ھوجاو۔
ھم نے زندگی گزار دی اپنا گروپ بنانے میں۔ پر کسی گروپ میں شامل نہیں ھوئے۔ ھماری ایک اور استاد کہتیں تھیں کہ ڈسکس ھونا ھی کامیابی ھے یہ چھوڑ دیں وہ منفی پہلو میں ھو یا مثبت پہلو میں۔ کچھ احباب کی میں نیگیٹو لسٹ میں ھوں۔ پر ھر میٹنگ میں یہ بتانا ضروری سمجھتے ھیں کہ وہ میری نیگیٹو لسٹ میں ھے۔ مجھے اچھا لگتا ھے کہ میں لوگوں کو پسند تو شاید نہیں ھوں پر یاد ھر لمحہ رھتا ھوں۔ ساری زندگی اپنے ساتھ کام کرنے والی ٹیم کو اولاد کی طرح سمجھا ان کے ھر دکھ، درد، خوشی میں شریک ھوا پر اللہ نے ھمیں ھمیشہ ایسا آفیسر دیا جس نے ھماری کبھی خبر ھی نہ لی۔پتہ نہیں یہ کونسی مینجمنٹ کی ٹریننگ ھے۔ جو انسان کو انسان نہیں سمجھتی۔ الحمدللہ چند دوست اور عزیز ایسے ھیں جو ھر وقت میرے لئے دعاگو ھیں اور رابطے میں ھیں ان کو دیکھ کر ھی اپنی قسمت پر نازاں ھوں۔ جب قرآن کھولتا ھوں تو لکھا دیکھتا ھوں کہہ دو بے شک میرے لئے اللہ ھی کافی ھے۔ یہ ھی میرا یقین کامل ھے کیونکہ قرآن کی ھر بات سچی ھے۔
جتنا میں نے بولنا تھا شاید بول چکا ھوں اب خاموش ھوگیا ھوں۔ کوئی پوچھے بھی کہ طبعیت کیسی ھے خاموشی سے دیکھتا رھتا ھوں۔ محفلوں میں جانے کو دل نہیں کرتا۔ سفر سے اجتناب کرتا ھوں۔ شاید میرے حصے میں ھنسنے کا کوٹہ جو آیا تھا ختم ھوگیا ھے۔ تقریبا دوسال ھونے کو آئے ھیں طبعیت ٹھیک نہیں رھتی۔ پر رب کا شکر گزار ھوں جب سے پتہ چلا ھے کہ بیمار کی دعا قبول ھوتی ھے۔ ھر وقت دعا کرتا رھتا ھوں سب کے بھلے کی بس خاموشی سے۔ کیونکہ میرا رب تو خاموشیوں کو بھی سنتا ھے۔ یقینا میرا رب ھی میری خاموشیوں کو جانتا ھے جو کبھی نہیں پوچھتا خاموش کیوں ھو۔ باقی زمانے کے پاس اس کے علاوہ سوال کوئی نہیں ھے۔ فجر کی آذان ھوگئی ھے میرا رب بلا رھا ھے آو خاموشی سے اس کی عبادت کریں اور سجدے بھی۔ یقینا پھر آپ کو کسی اور کے آگے جھکنے کی ضرورت محسوس نہیں ھوگی۔ انشاءاللہ

Prev شوگر
Next میرے ابا جی

Comments are closed.