خواب دیکھنے پر پابندی لگائی جائے
خواب دیکھنے پر پابندی لگائی جائے
تحریر محمد اظہر حفیظ
صاحب بہادر حکم صادر کیجئے کہ اب کوئی بھی خواب نہیں دیکھے گا خواب دیکھنے پر دفعہ 144 کا نفاذ کیا جائے اور جو بھی اس کی حکم عدولی کرے اس کو قرار واقعی سزا دی جائے،
خواب نفرت پھیلانے کا باعث بن رھے ھیں، اس کا فوری تدارک کیا جائے، کوئی اپنے بچے کو اچھا انسان، بڑا انسان بنانے کا خواب مت دیکھے، ورنہ سزا کیلئے تیار رھے، کوئی بھی اپنی بیٹی کے سہانے خواب پورے کرنے کے خواب مت دیکھے ورنہ سزا کیلئے تیار رھے، یا پھرخوابوں پر خواب ٹیکس لگادیا جائے، جو بھی خواب دیکھے وہ اپنے قریبی تھانے یاچوکی پر موجود رجسٹر پر اس کا اندارج کرے یا پھر آن لائن اپنا خواب لکھ کر وزیراعظم کے پورٹل پر بھیج دے، ایک اور وزارت خواب بنائی جائے جو خوابوں کی جانچ پڑتال کے بعد سزائیں تجویز کرے، اور اس میں اپیل کا حق بھی نہیں ھونا چاھیئے، ساری سڑکیں، ریلوے لائنیں، ائیرپورٹ ختم کردیئے جائے، زندگی نئے سرے سے شروع کی جائے جہاں خواب دیکھنے والے اور دکھانے والے دونوں کو سزا کا حقدار قرار دیا جائے، اگر حکومت وقت خوابوں کو کنٹرول کرلے تو سب مسئلے ھی ختم ھوجائیں گے، حالانکہ پاکستان کی بنیاد ھی حضرت علامہ محمد اقبال صاحب کے خواب سے شروع ھوئی اور قائد اعظم محمد علی جناح صاحب نے اس کو عملی جامہ پہنایا، پر اب خواب دیکھنے والے اور دکھانے والے بہت ھیں پر عملی جامہ پہنانے والے آج کل نہیں مل رھے،
اس لیے بہتر ھے خوابوں پر پابندی لگائی جائے یا پھر ایک نیا سافٹ وئیر بنایا جائے عوام کو اپڈیٹ کیاجائے جس میں خواب دیکھنے کی آپشن ھی نہ ھو، بس آپ دھمال ڈالیں، نہ کھانا کھائیں، نہ سوئیں، نہ بیمار ھوں، نہ شادی ھو، نہ اولاد ھو، نہ فوت ھوں، نہ زندہ ھوں، نہ سیاست ھو، نہ عوام ھو، نہ فوج ھو، نہ جنگ ھو، نہ حکومت ھو، بس جنگل کا قانون جو پہلے سے موجود ھے بس وھی ھو، جو جس کو چاھے مار دے، چھوڑ دے، پکڑ لے، معاف کردے، جتا دے، ھرا دے، گرادے، اٹھادے، وزیر بنادے، نشہ کرادے، شراب شہد بنادے، اقامہ بنوادے، سستی گاڑی دلوادے، تقریر کروادے، استعفی دلوادے، جس کو چاھے بادشاہ بنوا دے، یا پھر باریاں لگوادے، پانچ سال شیر بادشاہ ھوگا، اگلے پانچ سال لومڑ بادشاہ ھوگا، اگلے پانچ سال بندر بادشاہ ھوگا اور کئی دھائیاں بادشاھی صرف ھاتھی کی ھوگی جو بولے گا کچلا جائے گا، مجھے تو جنگل کا قانون ھی پسند ھے جو بحث کرے اس کو سزا دو، جو دن کو رات اور رات کو دن کہے اس کو جنگل کا محافظ بنا دو، جنگل کی بھی ایک چاردیواری ھونی چاھیئے، اور اس کے محافظ بھی چینی چور، آٹا چور، تیل چور مشیر ھونے چاھیئے آخر جنگل کی حکومت کے اخراجات بھی تو کوئی اٹھائے گا، درخت لگانا سب پر فرض ھونا چاھیئے جتنا جنگل گھنا ھوگا چور، ڈکیٹ پکڑنے بھی اتنے ھی مشکل ھونگے،
جنگل میں سیلاب آنے چاھیں، آگ لگنی چاھیئے، زلزلے آنے چاھیں کیونکہ جتنی بچت ریسکیو کے کام میں ھے شاید ھی آٹے، چینی اور تیل میں ھو، آئیں خواب دیکھنے چھوڑیں اور اپنا اپنا جنگل بنائیں، کوئی اپنے آپ کوئی شیر کہے، کوئی اپنے آپ کو ٹائیگر کہے، کوئی اپنے آپ کو بندر کہے، کوئی اپنے آپ کو گدھا کہے، کھانے کو گدھا ملے، کتا ملے، مرے ھوئے جانور اور پرندے ملیں، تو پھر انسان کہاں سے ملیں سب گدھ ھی ملیں گے، حرام کھانے اور کھلانے والے گدھ،
جنگل میں انسانوں کا کیا کام اور جانور خواب نہیں دیکھتے، زیادہ بھوک لگے تو ناگن کی طرح اپنے ھی بچے کھا جاتے ھیں، پاکستانیوں کا مسئلہ اغوا ھونا یا بازیاب ھونا نہیں ھے، بس خواب دیکھنا ھے اور اس پر پابندی لگادی جائے سب امن ھوجائے گا،جنگل آباد ھوجائے گا،
azhar
July 22, 2020
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020