درد
درد
تحریر محمد اظہر حفیظ
زندگی میں کبھی درد محسوس ھی نہیں کیا، بس شکرالحمدللہ ھی بولا۔ کئی درد آئے اور گزر گئے، کچھ تو مستقل زندگی کا حصہ بن گئے اور پھر یہ سوچ کر کہ یہ زندگی تو عارضی ھے درد کیسے مستقل ھوسکتا ھے۔ مسکرا دیتا ھوں اور کر بھی کیا سکتا ھوں۔ بس اپنے اختیار میں تو کچھ ھے ھی نہیں، کل بیٹھا چاروں بیٹیوں کو اپنے بیتے دکھ درد سنا رھا تھا ساتھ رونے لگ جاتا تو وہ مجھ سے لپٹ جاتیں بابا جی روئیں تو نا، میری جان تم اپنے بابا کو نہیں جانتیں اپنے درد کو تو کبھی محسوس ھی نہیں کیا، تو پھر رو کیوں رھے ھیں، میری جان میں تو ھمیشہ یہ سوچ کر روتا رھا کہ ۔میرے درد سے جو تکلیف میرے ماں باپ کو ھوتی ھے وہ کتنی زیادہ ھے تو اس کو محسوس کرکے رو پڑتا ھوں اور تو کچھ بھی نہیں،
میٹرک میں فیل ھوگیا، عربی، اسلامیات اختیاری اور مطالعہ پاکستان۔ مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا سوچتا تھا امی ابو بہن بھائی کچھ کہہ دیتے تو اچھا تھا، پھر دن رات پڑھتا رھا اور پاس ھوگیا، مجھے اس تکلیف کا اندازہ ھے جس میں آپ کو چپ ھی لگ جائے، رونا تو آسان کام ھے، پھر آئی کام کیا اور نیشنل کالج آف آرٹس لاھور چلا گیا، باسکٹ بال کا بہت شوق تھا، دن رات کھیلتا تھا، ورزش کرتا تھا، لاھور گولڈز جم ایبٹ روڈ پر ورزش کررھا تھا، کمر بیلٹ ٹوٹ گئی اور کمر کا ایک مہرہ اپنی جگہ سے ھل گیا،
بہت درد تھی، ناقابل برداشت ھاسٹل میں پڑا رھتا، صبح شام ڈیکلوران کا انجیکشن لگوا لیتا ٹیکے کا اپنا درد اتنا زیادہ ھوتا تھا کہ کمر کا درد تو بھول ھی جاتا اور جب وہ کم ھونے لگتا تو دوبارہ ٹیکے کی باری آجاتی، اور درد کو بڑا دھوکا دیتا رھا، درد تھا کہ بڑھتا ھی جارھا تھا، درد بھی سوچتا ھوگا مجھے بھلانے کیلئے درد کے ھی ٹیکے لگواتا رھتا ھے، گھر کسی کو نہیں بتایا، کہ ان کو تکلیف ھوگی، ایک دن بھائی کو کسی نے بتادیا کہ وہ بیمار ھے اور بیڈ پر لیٹا رھتا ھے، کالج نہیں آسکتا، گھر خبر ھوگئی، ڈاکٹر بشیر صاحب لاھور کے مشہور نیورولوجیسٹ کو چیک کروانا شروع کردیا، بھائی ھر ھفتے لیکر جاتا، پھر ابا جی لاھور آگئے مجھے وزیراعظم عمران خان صاحب کے سابقہ فیزیوتھراپسٹ اسلم صاحب کے پاس مال روڈ پر پینوراما سنٹر کے سامنے ان کی علاج گاہ تھی لیکر جاتے، وہ ورزش کرواتے،کمر پر باندھنے کیلئے بیلٹ بنا کر دی جس کی مدد سے میں چلنا پھرنا شروع ھوگیا، پھر ابا جی مجھے ھوائی جہاز میں اسلام آباد لے آئے، یہاں ڈاکٹروں سے علاج شروع ھوگیا، بستر پر لیٹا اکثر روتا رھتا، امی جی، بہن اور ابا جی پوچھتے درد زیادہ ھے پر کبھی کچھ نہ کہتا، وہ مجھے پکڑ کر اٹھاتے میرا بہت خیال رکھتے تھے، کل بیٹیوں کو بتایا دراصل یہ سوچ کر میں رو پڑتا تھا کہ بوڑھے ھوتے ماں باپ کے سامنے جب جوان اولاد بستر پر پڑی ھو تو وہ کس درد سے گزرتے ھیں، بہن جب جوان بھائی کو بستر پر دیکھتی ھے تو وہ کس تکلیف سے گزرتی ھے بس یہ سوچ کر رو پڑتا تھا اور تو کوئی وجہ نہ تھی، مجھے یاد نہیں پڑتا کبھی اپنے لئے رویا ھوں، پھر اللہ نے ٹھیک کردیا، ماں باپ اللہ پاس چلے گئے، جب میں اکتالیس برس کا ھوا تو امی جی چلی گئیں میں نہیں رویا اور جب پینتالیس برس کا ھوا تو والد صاحب چلے گئے، بس یہ سوچ کر روتا رھتا ھوں کہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کتنے چھوٹے تھے جب ان کے والدین چلے گئے، اور میں تو بچوں والا ھوں ساری خوشیاں ماں باپ کے ساتھ دیکھی ھیں، الحمدللہ اور کئی دفعہ تو اچھا بھی لگتا ھے کہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یتیم اور مسکین تھے چلو ھم بھی اس صف میں شامل ھوگئے، رونا کس بات کا ھر بات میں شکر الحمدللہ ھی بولتے ھیں، اکثر لوگ پوچھتے ھیں آپ کی چار بیٹیاں ھیں کبھی بیٹے کی خواھش دل میں آئی، میرے آنسو رواں ہوجاتے ہیں، سوری جناب غلط سوال کرلیا نہیں جناب یہ خوشی کے آنسو ھیں کہ میرے اللہ نے مجھے اس قابل سمجھا کہ بیٹیاں عطا کی شکر الحمدللہ اور کبھی بھی یہ خیال ھی ذھن میں نہیں آیا، میں اس کی رضا اور عطا میں ھی خوش ھوں۔
شاید دوستوں کیلئے یہ نئی بات ھو کہ میں مقابلوں میں جانا پسند نہیں کرتا بے شک وہ فوٹوگرافی کے ھوں یا زندگی کے، بس آسان زندگی پسند کرتا ھوں، نہ کبھی نمبر ون کی دوڑ میں شامل ھوا اور نہ ھی ھونا چاھتا ھوں، اور میری خواھش ھے اللہ میری اولاد کو بھی اس دوڑ سے محفوظ رکھے، آمین۔ کچھ عرصے سے کچھ درد ساتھ ساتھ ھیں، بیوی پوچھنے لگی ابھی درد ھو رھا ھے تو میں ھنسنے لگ گیا کیا ھوا، سچ بتاوں، جی بتائیں، یار جب درد نہ ھو تو پریشان ھوجاتا ھوں کہ خیر تو ھے آج درد کیوں نہیں ھورھا، پیٹ کو دبا کر دیکھتا ھوں کہ کہیں درد پھنس تو نہیں گیا جو نہیں ھورھا، بس ھلکا ھلکا ھر وقت ھوتا رھتا ھے اور میں بھی اپنے آپ کو زندہ لوگوں میں شمار کرتا ھوں اور جب تیز ھوتا ھے تو پھر نہ ھی پوچھو، بتادیں، شکر کرتا ھوں ماں باپ نہیں ھیں ورنہ اس حالت میں دیکھ کرکتنے پریشان ھوتے اور یہی سوچ کر رونے لگ جاتا ھوں، کیوں کیا آپ نے کبھی ھمارا نہیں سوچا، یار اب اور تو کوئی سوچ ھی نہیں ھے، آپ لوگ ھی تو ھیں جو میرے مسکرانے کی وجہ ھیں، اللہ کی قسم روتے روتے جو مسکراتا ھوں نا وہ آپ سب کی وجہ سے ھی مسکراتا ھوں، ورنہ مسکرانے کے تو حالات نہ ھمارے ھیں نہ ھی ھمارے ملک کے۔
سب درد میں ھیں، نہ شفاء ھے، نہ دوا ھے اور نہ دعا ھے۔ بس رونا ھے ایک دوسرے کے درد دیکھ کر ۔ اپنے تو میں بھول ھی جاتا ھوں ھمیشہ کی طرح۔
میرے ذہن سے تصویریں نہیں جاتیں، میرے وزیراعظم جب وہ تصویریں جس میں غربت سے تنگ آکر باپ اور تین بچے زھر کھا کر زمین پر پڑے ھیں، اور آپ کہتے ھیں گھبرانا نہیں، میں آپ کے حکم کی تعمیل میں گھبراتا ھرگز نہیں ھوں پر آنسوؤں پر میرا اختیار بھی نہیں ھے، بے اختیار رو پڑتا ھوں، ویسے رونے سے آپ نے منع بھی تو نہیں کیا ھے۔
azhar
July 27, 2020
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020