رشین کتے
رشین کتے
تحریر محمد اظہر حفیظ
سفید رنگ اور چھوٹے قد کے کتے جن کا کام صرف بھونکنا ھی ھوتا ھے میرا خیال تھا یہ شاید نسل کتوں میں ھی پائی جاتی ھے ۔ اور بغیر وجہ کے ھر وقت بھونکتے رھتے ھیں ۔ ان کو بس بھونکنا ھی اچھا لگتا ھے چاھے جو بھی موقع ھو۔ شادی ھو فوتگی ھو بس وہ بھونکتے ھی رھتے ھیں ۔ نہ حملہ کر سکتے ھیں نہ کوئی نقصان پہنچا سکتے ھیں ۔ گلی میں سے اگر کوئی لنگڑا انسان گزر جائے ڈر کے مارے دوڑ لگا دیتے ھیں۔ کہیں پتھر ھی نہ ماردیں۔ اسی طرح کے رشین کتے ھر فیلڈ میں پائے جاتے ھیں اور وہ سمجھتے ھیں کہ ھمارے بھونکنے سے ھمیں توجہ مل گئی ھمارے لئے یہی کافی ھے۔
مجھے گورنمنٹ آف چائنہ نے بلوایا 25 دن کیلئے چائنہ پوری دنیا سے گیارہ فوٹوگرافر اور بھی آرھے تھے۔ حکم یہ تھا کہ سوشل میڈیا پر کچھ نہیں لکھنا ایئرپورٹ پہنچنے سے پہلے۔ نانگا پربت بیس کیمپ حادثے کی وجہ سے سیکورٹی ایشو تھا۔
میں نے پوسٹ لگائی ایئرپورٹ سے کہ 25 دن بعد رابطہ ھوگا چائنہ کی تیاری۔
ساتھ ھیں صاحب نے پوسٹ لگائی سفارش پر چائنہ کے ویزے جاری ۔
میں نے فون کیا جناب میرے لائک کوئی حکم۔مکرنے کے بادشاہ ھیں کہنے لگے وہ ایک دوست نے سفارش سے ویزا لیا ھے اسکا لکھا ھے عرض کی انکے لئے چائنہ کچھ بھجوانا ھے تو بتائیں اور پوسٹ ڈیلیٹ ھوگئی۔ میں واپس آیا تو مجھے یاد ھے کہ ایسے لوگ بہت احسان فراموش بھی ھوتے ھیں۔ ھمارے سینئر فوٹوگرافر گلریز غوری صاحب کا 2013 میں فون آیا اظہر بھائی ایک گل کرنا سی جی بھائی جان حکم کریں یار کل ایک شخص اسلام آباد آرھا ھے اس کو معاف کردیں جی بھائی میں کون ھوتا ھوں معاف کرنے والا میرا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں ھے۔ یار کل اسکی ورکشاپ ھے وہ اسلام آباد آنے سے ڈر رھا ھے۔ بھائی جان ایسی کوئی بات نہیں ھے ھم شریف لوگ ھیں ھمیں کیا کوئی آئے کوئی جائے ھم کونسا بدمعاش لگے ھوئے ھیں یہاں۔
انھوں محبت کا اظہار کیا اور فون بند ھوگیا۔ اور ھم نے بھی خوش آمدید کہا کیونکہ ھم دلوں میں نفرت پالنے کے عادی نہیں۔ نوازشریف صاحب کے دور میں ڈاریکٹر جنرل ڈیمپ نے مجھے ، عاطف سعید صاحب اور آصف شیرازی صاحب کو بلایا آصف شیرازی صاحب مصروفیت کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے اور میری اور عاطف سعید بھائی کی میٹنگ وزیر مریم اورنگزیب صاحبہ سے کروائی گئی۔ عاطف سعید صاحب مصروف تھے اور یہ ذمہ داری میرے کندھوں پر آپڑی چاھتا تو صرف اپنا کام پرنٹ کرسکتا تھا لیکن میں موقع پرست انسان نہیں ھوں ۔ دو کتابوں کا میٹریل جمع کیا پہلی کتاب سجاد نبی بابر صاحب کی تھی برڈ آئی ویو آف پاکستان سجاد صاحب پاکستان کا فخر ھیں انھوں نے ساری تصاویر مہیا کیں میں نے اور دانیال گیلانی صاحب نے مل کر اس کتاب کو ڈیزائن کیا پروفائل پرنٹرز بلیو ایریا اسلام آباد میں اور لاھور سے یہ کتاب چھپ کر آئی الحمدللہ اس کتاب کو بہت پذیرائی بھی ملی یہ اپنی نوعیت کی پہلی پاکستانی کتاب تھی اور اس کے پیسے سجاد نبی بابر صاحب کو محکمے نے ادا کردیئے۔ لیکن پروفائل پرنٹرز کو ڈیزائن کے پیسے آج تک ادا نہ ھوسکے۔ اب دوسری کتاب کی تیاری شروع ھوئی محکمے کو تمام لوگوں کے ٹیلی فون نمبرز میں نے مہیا کئے۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈیمپ ملک ابوبکر صاحب کو اور انھوں نے فوٹوگرافرز کےگھروں پر دعوتی خط بھیجے۔اور یہ کام سب محکمے کی طرف سے ھوا۔
بیچ میں تصویروں کی قیمت پر کوئی ایشو ھوا محکمہ اور فوٹوگرافرز کا وہ میرے گلے ڈال دیا گیا۔ میں نے اپنی تصاویر فری مہیا کیں اس کو بھی ایشو بنا دیا گیا۔ اس پر بھی ایک کالم لکھا گیا میری عزت اچھالی گئی اور محکمے کی کاروائی پر سمیع الرحمن صاحب کے حکم پر وہ کالم ہٹا دیا گیا۔
ان صاحب نے لکھا کہ تصویریں نہ ھونے پر مقامی فوٹوگرافر نے تصویریں مانگنا شروع کردیں۔ میرا ظرف یہ تھا کہ ان دوست کے گھر بھی خط بھجوایا تھا عمیر غنی صاحب اور ملک ابوبکر صاحب اس بات کے گواہ ھیں کیونکہ بات پاکستان کی تھی میری ذات کی نہیں۔
کیا درگزر کرنا ھماری ھی ذمہ داری ھے کیا ان کے والدین نے کچھ نہیں سکھایا بڑوں چھوٹوں سے کیسے بات کی جاتی ھے۔ آج پھر وہ گلریز غوری صاحب جو انکو بچاتے پھر رھے تھے ان کی شان میں گستاخی شروع کردی۔ اور پھر پوسٹ ڈیلٹ کردی۔
یہ کیا شان بے نیازی ھے۔
جب سب اپنے کام سے کام رکھتے ھیں تو آپ کیوں نہیں ۔
ھر شخص کی شان میں بدتمیزی کرنا لکھنا کیا آپ کے فرائض میں شامل ھے، جو شخص بھی اپنی محنت اور اللہ کے فضل سے کسی مقام پر پہنچتا ھے خواہ وہ پاک فوج ھو،کرنل عبدالجباربھٹی صاحب ھوں ، مستنصر حسین تارڑ صاحب ھوں یا پھر گلریز غوری صاحب آپ کیچڑ اچھالنا اپنا فرض سمجھتے ھیں۔
آپ بہت اچھے فوٹوگرافر ھیں اچھے لکھاری ھیں اپنے کام پر توجہ دیجئے ناکہ منفی سوچ اپنا کر شہرت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ سے ھم سب ھدایت کی درخواست کرتے ھے بے شک وہ بہتر ھدایت دینے والے ھیں۔
(محترم دوست کی تمام پوسٹیں میرے پاس موجود ھیں تاکہ سند رھیں اور بوقت ضرورت کام آئیں ۔ کوئی بھی دوست دیکھنا چاھیئں تو حاضر ھیں )
azhar
September 13, 2019
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020