زندہ
زندہ
تحریر محمد اظہر حفیظ
زندگی گزرتی جارھی ھے اور عجیب غریب مناظر دیکھنے کو مل رھے ھیں، کچھ لوگ مر کر بھی زندہ ھیں اور کچھ زندہ مردے بھی چلتے پھرتے دیکھے، زیادہ ان لوگوں سے واسطہ پڑا جو مر تو پیدا ھوتے ھی گئے تھے پر گھوم پھر رھے ھیں ان پر نہ تو کوئی موسم اثر کرتا ھے اور نہ ھی بیماری، بس وہ خوش ھیں کہ وہ پیسے کما رھے ھیں جمع کر رھے ھیں، انکو حلال حرام کی تمیز نہیں ھے، کہانیاں بہت ھیں انکے پاس پر وہ خود کسی بھی کہانی کا حصہ نہیں ھیں ، کچھ لوگوں کا خیال ھے انکے ضمیر مردہ ھیں پر میرا خیال ھے مردہ ضمیر کیلئے بھی کم از کم انسان کا زندہ ھونا بہت ضروری ھے، کبھی وہ سیلانی کے ساتھ ملکر فری لنگر کا افتتاح فرماتے ھیں اور جلد ھی وہ ایدھی فاونڈیشن کے ساتھ ملکر ایشیاء کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کا بھی افتتاح کردیں گے، ھمارے تمام امراء یہ سمجھتے ھیں کہ وہ تاقیامت زندہ ھیں اور باقی سب نے مرجانا ھے، مجھے حیرانی ھے کہ ایک ملک کی عوام کرونا سے مر رھی ھے اور اس ریاست مدینہ کے صدر اور وزیراعظم بمعہ بیگمات کے کرونا ویکسین لگوا کر جام حیات پی چکے ھیں، وزیراعظم کا دو لاکھ میں گزارا نہیں ھوتا اور وہ مزدور کی تنخواہ اٹھارہ ھزار مقرر کر کے اس پر احسان فرماتا ھے، جس گھر کی معیشت کوئی دوسرا گھر کنٹرول کرے اور وہ باعزت زندگی گزارنے کا سوچے شاید یہ ممکن نہیں ھے ، کچھ میرے جیسے لوگ ادھار پر زندگی گزار دیتے ھیں اور لیکچر شرم، حیا، عزت پر دیتے ھیں، کچھ دوست ملک کی تقدیر بدلنے کیلئے موٹیویشنل سپیکر بن جاتے ھیں، اس کا فائدہ صرف انکی ذات کو پہنچتا ھے جو ھر تقریب میں جانے کے بھاری پیسے لیتے ھیں اور ساتھ اپنی کتب بھی بیچتے ھیں، کچھ لوگوں کو ھمارے ساتھ چلیں ھم آپکی زندگی بدل دیں گے سفر وسیلہ ظفر کا پیغام دیتے ھیں ، بلکل صحیح کہتے ھیں وہ بہت اچھے منتظم ھیں کھانا، پینا، سفری سہولیات کمال کی مہیا کرتے ھیں اور ساتھ بہت اچھے پیسے بھی کماتے ھیں کسی اور کی زندگی بدلے نہ بدلے پر انکی اپنی زندگی بدل رھی ھے،
کچھ دوست گھر بنا کر پلاٹ بنا کر بیچ رھے ھیں اور جو زمین ابھی خریدی بھی نہیں گئی وہ اس کو بیچ چکے ھیں اور شور کرنے پر پانچ دس سال بعد اصل پیسے واپس کرکے نیک بھی بن رھے ھیں، اربوں روپیہ لوگوں کا جس پر وہ ارب پتی بن کر زندہ ھیں اور لوگ در در کی ٹھوکریں کھا رھے ھیں، کسی بھی پراجیکٹ کی تفصیلات پڑھ لیں اسکی ادائیگی حلال پیسے سے ممکن نہیں ھے اور وہ لوٹتے بھی انھی کو ھیں جنہوں نے لوگوں سے حرام کمایا ھوتا ھے، کیا ایک سرکاری ملازم ساٹھ لاکھ سے دوکروڑ تک کا فلیٹ خرید سکتا ھے، کیا وہ بیس لاکھ ایڈوانس اور ایک لاکھ روپیہ مہینہ، تین لاکھ سہہ ماھی اور پانچ لاکھ ششماہی ادا کر سکتا ھے باقی تین سال بعد یہ سب کیسے ممکن ھے، وہ حلال پیسے سے زندہ بھی نہیں رہ سکتا تو وہ جہنم کی یہ آگ کیسے خریدے، ممکن نہیں ھے شاید جنت کیلئے کم محنت کرنا پڑتی ھے اور دوزخ کیلئے ساری زندگی کم پڑ جاتی ھے، جو مر گئے شاید وہ جنت کے لالچ میں تھے جو زندہ ھیں وہ دوزخ کیلئے بے شمار محنت کر رھے ھیں، اللہ سب کیلئے انکی منزلیں آسان کریں آمین،
ھر ھاوسنگ سوسائٹی میں اعلی سے اعلی مساجد ھیں جن کے نام ھاوسنگ سکیم کے مالک کے والدین کے نام پر ھیں، انکا خیال ھے اس طرح والدین بخشے جائیں گے، پیسہ لوگوں کا مساجد اپنے والدین کے نام کی کیا نیکی ھے، ھمارے محلے کی مسجد بن رھی تھی ایک دوست سے عرض کی بھائی اگر ممکن ھو تو بغیر منافع اصل لاگت پر کام کردیں فرمانے لگے سر جی مسجد کا کام کرنا عین ثواب ھے اور اس سے حاصل کردہ منافع بھی بہت برکت والا ھے یہاں سے نہیں کمائیں گے تو کہاں سے کمائیں گے،آج فیس بک پر ایک اشتہار برائے تعمیر اللہ کا گھر دیکھا،وہ فرماتے ھیں اگر مدد نہیں کرسکتے تو اشتہار کو اپنی وال پر شیئر کیجئے، تاکہ کوئی اور وسیلہ بن سکے، مجھے سمجھ نہیں آرھی جس اللہ باری تعالٰی کو ھر کام میں مدد کیلئے پکارتا ھوں اس کو اپنا گھر بنانے کیلئے ھماری مدد کی ضرورت ھے، مجھے یہ فلسفہ کچھ سمجھ نہیں آیا، انیس سو اکیاسی میں راولپنڈی آئے اس وقت سے پیر ودھائی سے آگے ایک تنگ پلی پر ایک بزرگ بیٹھے ھوتے ھیں جو راستہ ویسٹریج کو جاتا ھے امداد برائے تعمیر اللہ کا گھر ، بزرگ تو کئی بدل گئے پر مسجد مکمل نہیں ھوئی، چالیس سال سے وھیں کی وھیں ھے اسی طرح ھم نے بھی قرض اتارو ملک سنوارو، ڈیم بناو، کئی پراجیکٹ مکمل کئے نہ ملک سنورا اور نہ ھی ڈیم بنے، اور پتہ نہیں پیسہ کدھر گیا، اور وہ سب صادق اور امین ھیں، ایک خیراتی ھسپتال کا مالک سینکڑوں کنال کے گھر میں کیسے رہ سکتا ھے، ریاست مدینہ کا خواب دکھانے والے نے کیا کبھی اس نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا گھر دیکھا کہ جو سرکار دو عالم ھو اور بھوک سے پیٹ پر تین پتھر باندھے، یاد رکھئے گا، نہ ھم زندہ ھیں اور نہ ھی ھمارے حکمران زندہ ھیں، ھم بھی مردہ اور ھمارے حکمران بھی مردہ۔ اگر آپ کو کوئی زندہ شخص ملے تو مجھے بھی دکھائے گا، پر مردے کو مردہ کیسے دکھائیں گے، پتہ نہیں جہاں ھم رھتے ھیں وہ ھمارے مزار ھیں یا پھر قبرستان، جہانگیر کا مقبرہ، آصف جاہ کا مقبرہ، تاج محل، پتہ نہیں کس کس نام سے مردہ خانے اور قبرستان ھیں، جب مر ھی جانا ھے تو بھاگ دوڑ کس لیئے، کچھ لوگ فرمائش پر کالا جوڑا پہنتے ھیں اور پھر دفن سفید جوڑے میں ھوتے ھیں، کچھ کو تو وہ بھی نصیب نہیں ھوتا، کتنے آئے چلے گئے عارضی ٹھکانہ ھے سمجھو تو زندہ نہ سمجھو تو طیارہ فضا میں پھٹ بھی تو سکتا ھے پھر کون زندہ کون مردہ۔
azhar
March 29, 2021
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020