ساڈا ویلا چنگا سی
ساڈا ویلا چنگا سی
تحریر محمد اظہر حفیظ
سب یہی کہتے ھیں ساڈا ویلا چنگا سی ، اب اس حقیقت کا ادراک ھونا شروع ہو گیا ہے، اگر آج کسی کو یہ بتائیں جب ھمارے والدین کا دور تھا تو بھینس اسی روپے کی آتی تھی اور جب ھماری شادی ھوئی سونا پانچ ھزار روپے تولہ تھا ، پیٹرول سات روپے لیٹر تھا، پچاس روپے میں موٹر سائیکل کی ٹینکی فل ھوجاتی تھی، حاجی مینگو جوس داتا دربار لاھور سے پانچ روپے کا ملتا تھا نیشنل کالج آف آرٹس لاھور کی سمیسٹر کی فیس پندرہ سو روپے تھی، ھاسٹل دوسو روپے ماھوار پر ھوتا تھا، کوئٹہ ۔ اسلام آباد ۔ کوئٹہ پی آئی اے کا ریٹرن ٹکٹ اڑتالیس سو روپے کا ھوتا تھا، موٹروے کا ٹول ٹیکس اسلام آباد ۔ لاھور دو سو اسی روپے ھوتا تھا، لاھور ایم ایم عالم روڈ پر ویلج ریسٹورنٹ کا بوفے ڈنر ایک سو پچیس روپے کا ھوتا تھا، دی نیشن فیشن شوٹ کے بارہ سو روپے ادا کرتا تھا، دی فرنٹیئر پوسٹ اپنے وقت کا مشہور ترین انگلش اخبار تھا اور ھمیں اعزاز حاصل ھے کہ میں بھی اس ٹیم کا حصہ تھا، پہلی باقاعدہ نوکری دی فرنٹیئر پوسٹ سے بطور فیچر فوٹوگرافر شروع کی اور پہلی تنخواہ پانچ ھزار روپے تھی، بائیس تولے چاندی کا سیٹ بائیس سو روپے میں اپنی بہن کیلئے خریدا تھا، صرافہ بازار لاھور سے، پہلا موٹر سائیکل ھونڈا 125 سترہ ھزار پانچ سو میں نیا خریدا تھا اور پہلی ھونڈا 70 موٹر سائیکل بیس ھزار میں نئی خریدی تھی، میری والدہ ھیڈ میسٹرس ریٹائرڈ تھیں انکی پینشن انکی تنخواہ سے کئی گنا زیادہ ملتی تھی، جب بھی ان کیلئے کچھ لیکر آتا مثال کے طور پر کپڑے، جوتے وغیرہ تو پہلے تو خوشی سے گلے لگا کر رونے لگ جاتیں، امی جی کی ھوگیا، کہتیں ماشاءاللہ میرے بچے اتنے بڑے ھوگئے ھیں کہ ماں باپ کیلئے کچھ لا سکیں، مجھے کہتیں محمد اظہر حفیظ یہ کتنے کے آئے ھیں، میں ھمیشہ جھوٹ بولتا، اگر پانچ ھزار کے ھیں تو کہتا امی جی پچاس روپے کے اگر دس ھزار کے ھیں تو امی جی سو روپے کے تو کہتیں ھائے کننی مہنگائی ھوگئی ھے، ساڈا دور چنگا سی بڑی سوھنی چکن دی قیمض تے سفید شلوار تے نال دوپٹہ دساں دا یا پندرہ دا مل جاندا سی ، جی امی جی بس تھوڑی جئی مہنگائی ھوئی اے زیادہ تے نہیں، اپنی تنخواہ بھی اسی طرح بتاتا تھا محمد اظہر حفیظ تیری تنخواہ کننی اے امی جی اے ھی کوئی پنج ست ھزار، اچھا سب نوں نہ دسیا کر نظر لگ جاندی اے، جی امی جی صرف آپ کو ھی بتاتا ھوں، ابا جی ھنستے رھتے یار تو چوھدری صاحب نال جھوٹ نہ بولیا کر، جی اچھا، سستا دور تھا پینٹیکس کا ایم ای سپر چھ ھزار کا مل جاتا تھا اور پچاس ایم ایم 1:1.2 چار ھزار کا مل جاتا تھا، انڈین لائٹ پندرہ سولہ ھزار کا سیٹ مل جاتا تھا ، کام تب بھی چل رھا تھا کام اب بھی چل رھا ھے، بڑی گاڑیاں تو سعودی عرب جا کر ھی دیکھیں، پھر پراپرٹی کا کاروبار ایسا آیا کہ اب ھر طرف بڑی بڑی گاڑیاں ھی نظر آرھی ھیں، جن کو دیکھ ایسے لگتا ھے کہ مکہ یا مدینہ آگئے ھیں، ھمارے گاؤں میں جتنی بھی دوکانیں تھی سب ھی جب کوئی چیز خریدو تو ساتھ کوئی ٹافی یا گولی دیتے تھے جس کو چنگا کہا جاتا تھا، اسی طرح جب ھم ھاسٹل سے کھانا کھانے جاتے تھے تو گریوی کا لفظ سنا، جب سالن ختم ھوجاتا تو ویٹر فورا گریوی ڈلوا کر لے آتا، جس سے مزید ایک روٹی کھائی جاسکتی تھی، اب وقت بدل رھا ھے، کھانے کی پیکنگ کے بھی پیسے چارج کئے جاتے ھیں، کہیں بھی مناسب جگہ کھانا کھانے بیٹھ جائیں آرام سے فی کس ایک ھزار سے دوھزار خرچہ آجاتا ھے، اور اگر زیادہ مناسب جگہ پر چائے پینے چلے جائیں تو فی کس ھزار سے دوھزار چائے کا خرچہ بھی آجاتا ھے، میں تو ایک فقیر منش انسان نما چیز ھوں پرانے وقتوں میں ھی رھتا ھوں، اس لئے جتنے بھی لوگ ھم سے مزدوری کروانے آتے ھیں وہ بھی پرانے دور کے ھی لوگ ھیں، پورٹ فولیو کی مکمل چھان بین کرنے کے بعد وہ آپ کے کیمروں کی معلومات لیتے ھیں کونسا کیمرہ استعمال کرتے ھیں، لینز کون کون سے ھیں، ڈراون کونسا استعمال کرتے ھیں، لائٹس کونسی استعمال کرتے ھیں، ٹوٹل کتنے ٹیم ممبر ھونگے، یہ سب معلومات لینے کے بعد جب معاملہ پیسوں کا آتا ھے تو فرماتے ھیں دیکھیں جی جب ھماری شادی تیس سال پہلے ھوئی تھی تو ھم نے فی فوٹو دس روپے فوٹوگرافر کوادا کئے تھے، وہ بہت راضی گیا تھا، البم ھماری اپنی تھی جی بہتر، اب بتائیں آج کل کیا چارجز ھیں، جی وھی ھیں دس روپے فی فوٹو، پر ھمیں فوٹو نہیں چاھیئے سافٹ کاپی دے دیجئے گا کوئی رعایت ممکن ھے، جی ضرور میں تھوڑا مہنگا فوٹوگرافر ھوں کسی دوسرے کو بلا لیں شاید پانچ روپے میں آپ کا کام ھوجائے، نہیں آپ ھی کچھ مناسب کرلیں، ویسے لوگ نہ جی مہنگائی کا رونا ایسے ھی روتے رھتے ھیں اب دیکھیں جی تیس سال میں کچھ بھی تو نہیں بدلہ جی سچ کہہ رھے ھیں اس دور میں کیمرہ، لینز ، فلیش پندرہ ھزار کی آجاتی تھی اب جو کچھ آپ نے بتایا ھے بس پچاس لاکھ کا آتا ھے، مہنگائی تو کوئی نہیں ھوئی، آپکا دور اچھا تھا یہ تو بہت لالچی لوگوں کا دور ھے، یکدم امیر ھونا چاھتے ھیں، آئیں اس دور میں واپس چلتے ھیں ، یہ دور تو رھنے کے قابل نہیں،
azhar
June 30, 2021
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020