سب فکر میں ھیں
سب فکر میں ھیں
تحریر محمد اظہر حفیظ
ھمارے کچھ دوست لوک ورثہ کو محفوظ کرنا چاھتے ھیں، انکا خیال بجٹ کا بیشتر حصہ لوک ورثہ پر خرچ کیا جانا چاھیئے، محکمہ لوک ورثہ اسلام آباد کی حالت پہلے سے بہت بہتر ھے الحمدللہ میلہ میں داخلہ کا ٹکٹ فری سے سو روپے تک پہنچ گیا، کوئی بات نہیں میلہ ٹکٹ خرید کر ھی دیکھنا چاھیئے، میں نے جب سے ھوش سنبھالا ھے ھر سال اس میلہ کو دیکھنے اور تصویر کشی کرنے پہنچتا ھوں ، جن فنکاروں کو چھوٹے بچے کے طور پردیکھا وہ بھی اب بوڑھے ھورھے ھیں، مجھے ھر سال آنے والے ایک ایک فنکار کی شکل یاد ھوگئی ھے کچھ بے بسی اور بے کسی میں اس جہاں سے کوچ کرگئے، اور باقی کی حالت روز بروز بگڑتی جارھی ھے، باقی رھی سہی کسر بم دھماکوں اور کرونا نے پوری کردی ھے، مجھے کچھ ڈاکومنٹری فلمز کیلئے ان علاقوں میں سفر کرنے اور ان فنکاروں کے گھروں میں جاکر ملنے کا اتفاق بھی ھوا، کئی بڑے گھر ان فنکاروں کے فن سے بن گئے پر فنکاروں کے نام ختم ھوگئے، میری ناقص رائے میں ھمیں لوک ورثہ کی بجائے ان فنکاروں کو بچا لینا چاھیئے، جو کہ مشکل نظر آتا ھے، پنجاب، کشمیر، گلگت بلتستان، بلوچستان ، خیبر پختون خواہ، سندھ سب طرف چکر لگا لیں فنکار تو نہیں بچیں گے بس تقریریں ھی بچ سکیں گی ، کچھ دوستوں کو آثار قدیمہ کی فکر کھائے جا رہی ھے ، آئے روز احتجاج اس عمارت کو بچا لو عجائب گھر بنا لو، کیا ھمارا ملک جہاں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ھے ، کھانے کو روٹی نہیں ھے، علاج کیلئے ھسپتال نہیں ھیں، تعلیم کیلئے سکول نہیں ھیں، حکومت کیلئے سویلین لوگ نہیں ھیں، کیا ھمیں صرف کینسر کامرض ھے یا باقی امراض کے بھی ھسپتال بننے چاھیں، اس طرح کی عقلمندانہ باتوں کا متحمل ھوسکتا ھے، مہربانی فرما کر پہلے عوام کی بنیادی ضروریات کی طرف توجہ دیجئے، اگر کوئی بھی غیر ملکی ادارہ یہاں پر آثار قدیمہ یا لوک ورثہ پر پیسے لگانا چاھتا ھے تو مہربانی فرماکر ان کو عوام کی حالت زار دکھائیں، جتنے بھی ادارے پاکستان کے ورثہ یا آثار قدیمہ کو محفوظ کرنا چاھتے ھیں انکے افسران کا کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں کا استعمال کیوں ضروری ھے یہ سب پیسے بچا کر اس پروجیکٹ پر لگائے جائیں، اس پروجیکٹ کی تشہیر کے پیسے بھی عوام پر لگائے جائیں، اگر ایسے ادارے کے ملازمین فائیوسٹار ھوٹلز میں ٹھہرنا چھوڑ دیں تو یہ ھوٹلز بند ھوجائیں، کچھ دوستوں کا خیال ھے کہ سیاحت کا فروغ ھمیں اس اذیت سے نکال لے گا، کچھ کا خیال ھے لوک ورثہ کی ایکسپورٹ سے ھم امیر ترین ملک بن جائیں گے، میرے محترم پہلے ملک کو اس قابل تو بنائیں، کہ لوگ دیکھنے آئیں عوام کو بنیادی سہولیات مہیا کریں، کرونا کا پہلے حملے اور دوسرے حملے میں جو وقفہ آیا موبائل پر رنگ ٹون چلانے کے علاوہ گورنمنٹ نے کہاں ترغیب دی کہ اپنے مدافعتی نظام کو بہتر کرکے ھم اس بیماری سے بچ سکتے ھیں، جو سال گزر گئے گزر گئے سو گزر گئے، اب اس لکیر کو پیٹنے کی بجائے نئی حکمت عملی واضح کی جائے، کیا ھم صرف زیرہ پلس بسکٹ، توت سیاہ پلس ملٹھی اور وزیراعلٰی پلس تک ھی محدود رہ گئے ھیں، آپ پلس والی ساری خصوصیات اپنے پاس رکھیں ھمیں صرف بنیادی سہولیات مہیا کردیں، ھمیں کیا لینا دینا امریکہ، انگلینڈ، فرانس سے ھمیں ھمارا پاکستان ھی دے دیں۔ کسی کا اپنی ماں کے جنازے میں آنا یا نہ آنا ھمارا مسئلہ نہیں ھے، اسکی ماں جانے اور وہ جانے، اگر کوئی چور ھے تو اس کے ھاتھ کاٹ دو، اگر کوئی قاتل ھے تو پھانسی پر لٹکا دو، سوشل میڈیا بے شک بند کردو پر اپنی آنکھیں تو کھولو، بے روزگاری، غربت کے ھر طرف ڈیرے ھیں، جو برسر روزگار ھیں ان کو بہت تیزی سے بے روزگار کیا جارھا ھے، ھم نے کیا کرنا بی بی سی اور سی این این کا، اپنے ادارے بناو اپنی اقدار کو سامنے رکھ کر، روز نئے چیننل کھل رھے ھیں پر تنخواھیں نہیں دے رھے، لائسنس دیتے وقت انکی اوقات کیوں نہیں دیکھتے یا بس فیس لیکر لائسنس جاری کردیا، پاکستان ھاوسنگ اتھارٹی ایک ایک فلیٹ ساٹھ لاکھ سے دوکروڑ تک کا بیچتی ھے کوئی ایک سرکاری ملازم بتا دیں جو خرید سکتا ھو ، جو خرید رھے ھیں ان سے کسی نے پوچھا کہ کیسے خریدا، گریڈ ایک سے بائیس تک کوئی بھی حلال طریقے سے نہیں خرید سکتا، کوئی تو سوچے،اگر حکومت وقت کو نظر نہیں آرھا تو میرے ساتھ چلیں میں دکھاتا ھوں، ورنہ صرف میری آنکھیں ساتھ لے جائیں شاید نظر آجائے، فکر کرنے والی چیزوں کی فکر کریں، اگر عوام نہیں ھونگے تو تم حکمرانی کس پر کروگے، رعایا بچا لو اگر حکمرانی کرنی ھے تو، شکریہ
azhar
November 30, 2020
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020