سجن بے پرواہ

سجن بے پرواہ
تحریر محمد اظہر حفیظ

شکر الحمد زندگی کے سب مزے دیکھے اور دیکھ رھے ھیں۔
میری ذمہ داری یہ مزے دکھانے کی بھی ھے تو میں نے جو بھی دیکھا اس کی تصاویر بنائیں اور فلمیں بنائیں اور سارے جہاں کو دکھائیں۔
کوشش کی اپنی ذمہ داری پوری محنت سے نبھاوں اور نبھا رھا ھوں۔
پچھلے کچھ ماہ سے تصاویر بنانے میں دقت آرھی تھی۔ تو لکھ کر یہ ذمہ داری نبھاتا ھوں۔ شکر الحمدللہ۔
تصاویر بھی ھمیشہ مزے لیکر بنائیں اور تحریر بھی ھمیشہ مزے لیکر لکھی۔ یہ مزے مختلف نوعیت کے تھے کبھی رو دینا اور کبھی ھنس دینا۔ فوٹوگرافی اور لکھنے کے دونوں راستے ھی مشکل ھیں۔
مجھے یاد ھے جب 1999 میں جھنگ میں آگ لگی تھی ایک آئل ٹینکر کو تو پہلی دفعہ انسانی گوشت کے جلنے کی بو سے بھی اس شوق نے آشکار کروایاتھا۔ اور کبھی سنکیانگ کے انگوروں کے باغ، گھاس کے میدان، گھوڑوں کے ریوڑ بھی اسی شوق نے دکھائے۔ کبھی پانچ بڑوں کی سر زمین مسائی مارا کینیا۔ یہ شوق لے گیا اور وھاں شیر ، چیتا، دریائی گھوڑا، ھاتھی، زرافہ اور گینڈے بھی دیکھے، ھرن اور زیبرا کے غول بھی دیکھے اور طرح طرح کے پرندے بھی دیکھے۔ مجھے میرے رب نے کیا کیا دکھایا بتانے کیلئے ایسی کئی زندگیاں کم ھیں۔
شکر الحمدللہ۔ کہاں میں گاوں کا ایک بچہ۔ جس نے آج تک پورا گاوں بھی نہیں دیکھا تھا اور میرے رب نے مجھے دنیا دیکھنے اور دکھانے پر لگا دیا۔
کل عظیم شاعر انور مسعود نے ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ منیر نیازی صاحب نے ایک دفعہ کہا انور قرآن کی آیات کا حسن ھے کہ یہ بے ضمیر لوگوں سے پردہ کر جاتی ھیں۔ اسی طرح میرا رب بے ضمیر لوگوں پر دنیا کے حسن بھی نہیں کھولتا۔
جب بھی سورہ الرحمن سنتے ھیں اور میرا رب کہتا ھے کہ “اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاو گے”۔ آج سوچتا ھوں ھر نعمت کو میرے رب نے مختلف حیات کیلئے مختلف رکھا ھے۔ میرا رب جس طرح مجھے چیزیں دکھاتا ھے اوروں کو مختلف طرح سے دکھاتا ھے۔
مجھے میرے رب نے اتنا اپنی نعمتوں سے نوازا ھے کہ میں نے ھمیشہ ھنسنے، رونے، دکھ، سکھ ، گرمی، سردی، امیری، غریبی، صحت، بیماری، زندگی، موت، رشتے، دوستیاں، دشمنیاں، سب چیزوں کے ھی مزے لئے اور شکر ادا کیا۔
میں محبت کرنے کو ھی زندگی سمجھتا ھوں اور شاید نفرت موت کا نام ھے۔
شکر الحمدللہ میں اللہ کی مخلوق سے محبت کرتا ھوں اور وہ مجھ سے۔
اگر آپ بھی زندگی جینا چاھتے ھیں۔ زندگی کے مزے لینا چاھتے ھیں تو محبت کیجئے یہی زندگی ھے۔
ایک بس کے پیچھے لکھا ھوا تھا۔ سجن بے پرواہ۔
میں کبھی بھی مقابلے کی دوڑ میں، حسد میں، نفرت میں شامل نہیں ھوتا بلکہ سجن بے پرواہ والا رویہ اپناتے ھوئے گزر جاتا ھوں۔
سجن ھونا بھی ایک مزا ھے پر ساتھ بے پرواہ ھونا اس سے بھی زیادہ مزے کا کام ھے۔
جب بھی کوئی ٹیسٹ ھوتا ھے تو سٹاف کہتا ھے۔ سر ابھی سوئی چبھےگی اور میں سجن بے پرواہ ھوجاتا ھوں اور کوئی سوئی، کوئی چبھن محسوس نہیں ھوتی ۔
شکرالحمدللہ مزے زندگی کے لے رھا ھوں اور سجن بے پرواہ بنتا جارھا ھوں۔ شکرالحمدللہ

Prev میرے لاھوریے
Next عدل

Comments are closed.