سلیز مین

سلیز مین

تحریر محمد اظہر جفیظ

اچھے سیلز مین سب کچھ بیچ جاتے ہیں۔

کچھ سائیکل پر کپڑا بیچتے فیکٹریوں کے مالک بن گئے اور کچھ سریا بیچتے فیکٹریوں کے مالک بن گئے ، زیادہ بڑے سیلز مین وہ تھے جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور وہ پھر بھی بیچ رہے تھے اوربیچ بھی گئے جیسے کسی نے ایک عربی شہزادے کو ملکہ برطانیہ کا آدھا محل بیچ دیا جوکہ صرف سیاحوں کیلئے کھولا گیا تھا، شہزادے نے اس کی خاصیت پوچھی تو اس نے بیان کی کہ آپ روزانہ ملکہ برطانیہ کے ساتھ چائے پی سکیں گے، اور وہ سیلز مین گھر بیچ گیا، اور رجسٹری بھی کروادی، پھر شہزادے کو پتہ چلا کہ اس کے ساتھ تو فراڈ ہوگیا ہے، ایک شخص نے تین دفعہ ایفل ٹاور بیچا اور ہر دفعہ ایفل ٹاور بیچنے پر گرفتار ہوا سزا کاٹی اور ریائی کے فورا بعد دوبارہ سیل کردیا۔ ہمارے یہاں بہت سے پراپرٹی کے شعبہ سے وابستہ کئی لوگ راولپنڈی، اسلام آباد کے ٹوٹل رقبے سے زیادہ اس کو بیچ چکے ہیں۔ شاید اب گوجر خان سے اٹک تک راولپنڈی اسلام آباد ہی ہے، جب سب بک جاتا ہے تو متعلقہ ادارے اس دن اخبارات میں خبر اور اشتہارات لگاتے ہیں کون کون سی ہاوسنگ سوسائٹی کی منظوری نہیں یے، جب یہ فروخت ہوتا ہے اس کی ایڈورٹائزنگ ہوتی ہے یہ سب نشہ کرکے سو رہے ہوتے ہیں کوئی ہوش میں نہیں ہوتا۔

کچھ لوگ کروڑوں دے کر مختلف محکموں میں طعیناتی کرواتے ہیں تو پتہ چلتا ہےکہ اتنے کروڑ تو اس ادارے کا سالانہ بجٹ نہیں ہے،

کچھ سیلز مین حکومت سے چیزیں خریدتے ہیں اور ان کے قریبی ان سے کسی اور کے نام سے خریدتے ہیں اور پھر مارکیٹ میں دس گنا قیمت پر بیچ دیتے ہیں۔ اور بدنام پہلا بیچنے والا ہوجاتا ہے۔

ایک آرٹسٹ دوست نے بتایا کہ یار آرٹسٹ تو ایک بنیادی قیمت پر آرٹ پیس بیچتا ہے پر اس کو مہنگے داموں کچھ عرصے بعد کولیکیٹر بیچتا ہے اور اصل قیمت سے کئی ہزار گنا کماتا ہے۔

انکی آپنی پینٹنگ ملینز ڈالرز میں فروخت ہورہی ہے جبکہ وہ اسکوچند لاکھ پاکستانی روپے میں کچھ سال پہلے فروخت کرسکے تھے۔

ہمارے فوٹوگرافی کی فیلڈ میں کامیاب سیلز مین وہی ہیں جو استعمال شدہ کیمرے فروخت کرتے ہیں اور کیمرے سے متعلقہ اشیاء بیگ، لینز، کارڈ ، لائٹ وغیرہ بیچتے ہیں، نئے کیمرے میں تو انکو صرف فارن ٹور ہی بچتا ہے، باقی وہ ڈسکاونٹ دے دیتے ہیں۔

میں پرندے پالنے کا شوقین ہوں ۔ اس شوق میں بھی چند لوگ بہترین سلیز مین کی صلاحیت کا ناجائز استعمال کرتے ہیں ۔ رقم منگوا لیتے ہیں اور پرندے نہیں بھیجتے، وہ جعلی کارڈ پر ایزی پیسہ یا جاز کیش پر پیسے منگواتے ہیں، اور شہر کا نام غلط استعمال کرتے ہیں اور پھر فون نمبر بھی وہ استعمال کرتے ہیں جس کا کوئی ڈیٹا نہیں ہوتا ، پچھلے دنوں میں بھی سیالکوٹ سے کسی سیلز مین کی چالاکیوں کا شکار ہوا پر الحمدللہ 24 گھنٹے میں پیسے میرے اکاونٹ میں واپس آچکے تھے۔ اور بیچنے والا راولپنڈی میں بیٹھا ہوا تھا، وہ سیالکوٹ کے قیس مشتاق نامی شخص کا شناختی کارڈ استعمال کر رہا تھا۔ اور اصل نام اویس ظفر راولپنڈی رہائشی تھا۔

روزانہ کی بنیاد پر مختلف فون کمپنیوں کا نام لیکر انعامات کے اعلانات کے فون، احساس پروگرام، بینظیر انکم سپورٹ کی رقم کے پیغامات تو عام سی روٹین ہے، بہت سارے لوگ اپنے اکاونٹس کی ڈیٹیلز دے کر اپنی جمع پونجی سے محروم ہوچکے ہیں۔

سنا ہے کہ مسجد سے چوری شدہ ٹوٹیاں، جوتے، اور پنکھوں کے استعمال سے بھی ثواب ملتا ہے ، اور یہ مختلف قسم کے سیلز،مین ہیں جو اس سامان کی فروخت کے مختلف فائدے بتاتے ہیں اور بیچ دیتے ہیں ، یہ اللہ کے نیک بندے حرم شریف سے قرآن کے نسخے چورانا بھی نیکی تصور کرتے ہیں ، یہ سیلز مین جائے نماز پر حرم اور مسجد نبوی کی تصاویر لگا کر ان کو آسانی سے بیچ دیتے ہیں ، آج کل ایک نیا ٹرینڈ چل پڑا ہے خانہ کعبہ کی تصویر والی گھڑی کہ جب آپ وقت دیکھیں تو آپ کی نظر خانہ کعبہ پر پڑے اور سیلز میں اسکو بھی بیچ دیتے ہیں ،

مجھے یاد ہے ٹی وی کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں زاہد بگا سے ملاقات ہوئی جنکے پاس اس وقت دو خانہ کعبہ کےمکمل غلاف تھے اور انھوں نے یہودیوں سے خریدے تھے کیونکہ مسلمان شہزادے پیسوں کیلئے انکو یہودیوں کے پاس بیچ چکے تھے،

محترم سیلز مین دوستوں ہر چیز برائے فروخت نہیں ہوتی ، کچھ چیزوں کا احترام اور حیا ضرور کرنا چاہیے ، ملکی اثاثہ جات ، ملکی راز اور ماں، بہن، بیٹی بیچتے کو سیلز مینی نہیں بے غیرتی کہتے ہیں۔ احتیاط کیجئے حیاء کیجئے ۔ اللہ کا واسطہ ہے، جزاک اللہ خیر

Prev گھڑی
Next عزت

Comments are closed.